آئین و انصاف کا نوحہ!!!

0
92
جاوید رانا

آج ہم اپنے کالم کا آغاز کتاب الٰہی کی سورة عمران کی آیت کے اردو ترجمے سے کر رہے ہیں ”بے شک اللہ انصاف کا، احسان کا اور رشتہ داروں کو (اُن کے حقوق) دینے کا حُکم دیتا ہے”۔ ہماری تمہید کی وجہ ہفتۂ رفتہ اور گزشتہ ایام میں وطن عزیز میں ہونیوالے واقعات، عدالتی رویوں باالخصوص لاہور کی عدالت کا سلیمان شہباز کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں بری کئے جانے کا فیصلہ ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے پیش کردہ مقدمہ سات والیومز، سترہ ہزار ٹرانزیکشنز اور چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے، نیز ملازمین کے اکائونٹس (مشتاق چینی و مقصود چپڑاسی جیسے) میں لاکھوں کی ٹرانزیکشنز کے حقائق و شہادتوں کے ثبوت کے باوجود جج موصوف نے محض اس نکتہ پر بریت کا فیصلہ کر دیا کہ ایف آئی اے مقدمہ کے اندراج و تحقیق کی مجاز تھی؟ واضح رہے کہ اس کیس میں سلمان شہباز کیساتھ شہباز شریف، حمزہ شہباز و دیگر افراد خاندان بھی نامزد تھے، گویا اس فیصلے کے بعد اب یہ تمام نامزدگان بھی اس کیس میں بری ہوگئے۔ ہمارا اندازہ تو یہ ہے کہ اب اس کیس کی اپیل بھی ممکن نہ ہو کیونکہ نامزدگان صاحبان اقتدار ہیں۔ ویسے بھی اگر وطن عزیز میں انصاف کے اداروں اور ذمہ داروں کے کردار وں، فیصلوں پر نظر ڈالیں تو جسٹس منیر سے آج کے دور کے مصنفین تک کی تاریخ محض سوالیہ نشان ہے۔ ترازو کے پلڑے یکساں نہیں رہے۔
متذکرہ بالا آیت ربانی میں انصاف کیساتھ، احسان و حقوق کی ادائیگی کا حکم فرد سے ریاست تک کیلئے واضح ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ فرد سے قوم تک نہ ہی احسان (سہولیات زندگی) پر توجہ دی گئی ہے اور نہ ہی حقوق انسانی(عوام) کی پرواہ کی گئی ہے، اس کے برعکس مقتدرین اور عوامی نمائندگان نے اپنے حقوق و مفاد کو اولیت دی ہے اور ملک و عوام سے وہ کھیل کھیلے گئے ہیں جن سے معاشرت، معیشت، سیاست و استحکام وطن کے پرخچے اُڑ چکے ہیں۔ نفرت، عداوت اور تقسیم کا ایک بھنور ہے جس نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور اظہار رائے کی آزادی کو شجر ممنوعہ بنا دیا ہے۔ اغراض و مفادات اور اقتدار کی ہوس نے ملک کو اس منزل پر لا کھڑا کیا ہے جہاں عدم استحکام اور غیر یقینی کے باعث وطن میں ہی نہیں بین الاقوامی منظر نامے میں ہماری کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہے۔ اس ملک کی بد نصیبی ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک عوام کے احساسات و خواہشات کے برعکس حق حکمرانی و اقتدار سازشوں اور پردہ نشینوں یا عالمی طاقتوں کی مرضی کے زیر نگیں رہا ہے۔ اگر کبھی عوام کی حمایت و جدوجہد سے کوئی قومی رہنما اقتدار کی راہداری میں آیا بھی تو اسے دیوار سے لگا کر نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ معذولی، قید و بند حتیٰ کہ زندگی سے محرومی تک کے اقدام سے گریز نہیں کیا جاتا ہے۔
سیاست و اقتدار کے کھیل کے اس منظر نامے میں گزشتہ 3 دہائیوں کا جائزہ لیں تو یہ کھیل اسٹیبلشمنٹ کی پسند نا پسند کے محور کے گرد گھومتا ہی نظر آتا ہے۔ Like اور Dislike کے اس تماشے میں جب بھی متعلقہ فریق اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے سے انحراف اور عوامی اُمنگوں کے مطابق عمل کرے تو اسے راندۂ درگاہ کر کے دوسرے فریق کو اقتدار سونپ دیا جا سکتا ہے چشم فلک نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس کھیل میں انصاف کے مخالفین بھی شریک کار ہوتے ہیں اور ہوا کے رُخ پر چلتے ہیں۔ دو دہائیوں تک یہ کھیل ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو اقتدار کی راہداریوں میں داخلے و اخراج کے حوالے سے چلتا رہا لیکن ان دونوں جماعتوں کی لُوٹ مار، کرپشن اور عوام کی ناپسندیدگی نیز نوازشریف و زرداری کی اصل حکمرانوں کو آنکھیں دکھانے کے سبب 2018ء کے انتخابی عمل کے نتیجے میں عمران خان عوام کی حمایت اور اپنے بے داغ و ایماندارانہ کردار کی وجہ سے پاکستان کا وزیراعظم بنا اور پی ٹی آئی پارلیمان کی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی۔ معاملات صحیح چل رہے تھے، عمران کیلئے عوام کی چاہت و مقبولیت دن بہ دن افزوں تھی، عوام کی خوشحالی و بہتر زندگی کیلئے مختلف منصوبے و اقدامات روبہ عمل تھے لیکن مبینہ طور پر مقتدرین کو یہ سب کچھ راس نہ لگا، دوسری طرف عمران اپنی فطرت کے باعث فیصلہ سازوں کے ایجنڈے پر عمل کرنے میں ان کیلئے سنگ راہ بن رہا تھا تو عدم اعتماد کے توسط سے پرانے وفاداروں کو سامنے لایا گیا اور نا اہل ٹولے کو اقتدار دیدیا گیا۔ بعد ازاں ملک اور عوام کی بدحالی، عدم استحکام اور معیشت کی تباہی کیساتھ انتقام و جبر کا جو سلسلہ جاری ہوا اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغنوں، قید و بند کے اقدامات کئے گئے، 9 مئی کی آڑ میں اب انتہا کو پہنچ گئے ہیں، ان کی تفصیل سے ہر پاکستانی آگاہ ہے۔ اکیلے عمران خان پر مقدمات کی تفصیل 200 تک پہنچ چکی ہے، اسے کسی بھی طرح گرفتار یا جمہوریت کے منظر نامے سے نا اہل و محروم کرنے کے ہر طرح کے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس غیر جمہوری و غیر آئینی تماشے میں ہماری عدلیہ بھی اپنے فرائض انصاف سے (خصوصاً ماتحت عدالتیں) اغماض برت رہی ہے الیکشن کمیشن، نیب اور دیگر ادارے بھی اصلی آقائوں کی مرضی کے مطابق عمل پیرا ہیں۔ لاہور کی عدالت کا شریفوں کے حق میں فیصلہ بھی اس فیصلے کی ایک کڑی ہے، دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ میں اختلافی دراڑیں بھی اس حقیقت کی غماض ہیں کہ کسی بھی طرح عمران کو انتخابی و جمہوری پراسس سے باہر کر کے ہی انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔
اس بات کا شور ڈالا جا رہا ہے کہ اسمبلیوں کی تکمیل پر انتخاب کرائے جائیں گے لیکن ہمارے خیال میں نیوز دلی دور است” مقتدرین کا ٹارگٹ ہے کہ الیکشن کا انعقاد اس وقت ہو جب تک عمران اور پی ٹی آئی کا سیاسی و انتخابی ایرینا سے صفایا نہ ہو جائے، اس دوران نگران حکومت سے کام چلایا جائے بلکہ آئی ایم ایف کے مطالبات کی تعمیل بھی ہو جائے۔ ستمبر میں موجودہ چیف جسٹس اور صدر مملکت کی تکمیل مدت موجودہ سیاسی حکومتی اشرافیہ و اصل حکمرانوں کے حق اور عمران خان کیلئے خدشات کا باعث ہو سکتی ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ کی غیر جانبداری بھی متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔ ان تمام حالات میں ایک محب وطن پاکستانی ہوتے ہوئے ہمیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وطن عزیز ایک ایسی ریاست کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں نہ امن ہے نہ سکون، نہ عوام کا حق آزادی رائے ،نہ حق رائے دہی اور نہ ہی آئینی، جمہوری، انصاف و اقتدار کا وجود باقی رہا ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ (خاکم بدھن) وہی ہوتاہے جو 1971ء میں وطن عزیز کا ہوا تھا۔ احمد ندیم قاسمی مرحوم کے بقول !
جہاں پھولوں کی خوشبو بک رہی ہو
مجھے ایسے چمن سے دور لے جائو
جہاں انسان کو سجدہ روا ہوا
مجھے ایسے وطن سے دُور لے جائو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here