نیویارک (پاکستان نیوز)امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہروں کے دوران 140 سے زائد صحافیوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔امریکہ میں مئی کے آخری ہفتے سے جاری مظاہروں کے دوران صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران شدید مشکلات کا سامنا رہا۔مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی زد میں کئی صحافی بھی آئے۔ سی این این کے رپورٹر کی براہ راست کوریج کے دوران گرفتاری کے بعد صحافیوں کو حراست میں لینے کے کئی واقعات پیش آئے۔رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لکھنے والے برطانوی صحافی نک واٹرز نے انکشاف کیا ہے کہ 30 مئی سے لے کر سات جون تک 144 واقعات میں صحافی سیکیورٹی اہلکاروں کے تشدد کا نشانہ بنے اور ا±نہیں حراست میں لیا گیا۔ان واقعات میں زیادہ تر منی ایپلس میں ہوئے جبکہ ملک کے دیگر شہروں میں صحافی زیرِ عتاب رہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 72 فی صد واقعات میں تعارف کرائے جانے کے باوجود صحافیوں کو ہراساں کیا گیا اور ا±ن پر آنسو گیس کی شیلنگ کے علاوہ تشدد بھی کیا گیا۔ اس دوران کئی صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔
وائٹ ہاو¿س کے باہر مظاہرے کی کوریج کرنے والے آسٹریلیا کے نشریاتی ادارے ”سیون نیوز آسٹریلیا“ کے صحافی ٹم مائرز کو پولیس اہلکار نے اپنی حفاظتی شیلڈ کے ذریعے دھکے دیئے اور پیچھے ہٹانے کی کوشش کی۔واقعے پر آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے امریکہ میں آسٹریلوی سفارت خانے کو واقعے کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔ صحافیوں پر تشدد کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے ‘یو ایس پریس فریڈم ٹریکر’ کی رپورٹ کے مطابق اس نے اب تک 300 واقعات کا ڈیٹا مرتب کیا ہے۔ان واقعات میں 54 صحافیوں کو گرفتار 208 پر حملہ جب کہ 73 صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان میں سے 47 واقعات میں پولیس اہلکار ملوث تھے۔ صدر ٹرمپ نے بھی مظاہروں کے دوران ذرائع ابلاغ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 31 مئی کو ایک ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ میڈیا افراتفری اور نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ میڈیا ‘فیک نیوز’ کے ذریعے اپنا مذموم ایجنڈا پورا کرنا چاہتا ہے۔ 25 مئی کو سیاہ فام 46 سالہ شخص جارج فلائیڈ پولیس تحویل میں ہلاک ہو گیا تھا جس کے بعد امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔