ویسے تو پاکستانی معاشرہ بے اصولی، بدعنوانی اور پرتشدد داستانوں میں گھرا ہوا ہے۔یہاں انتظامیہ عدلیہ اور طاقتور اداریہ بھی مکمل طور پر معاملات کو سنبھالنے میں بے بسی کی تصویر بننے ہوئے ہیںلیکن ایک ملک ریاض ہے جس نے ریاست کے تمام ستونوں کو اپنی جیب میں ڈالا ہوا ہے کیا جنرل تو کیا جج اب تو نامور جنرلسٹس کی ویڈیو تک سامنے آگئی ہیں۔جس میں لاکھوں کروڑوں کی رقوم کے تبادلے طے ہوئے ہیں۔ان تمام بڑے بڑے صحافیوں لکھاریوں اور ٹی وی اینکروں کے راز فاش تو پہلے ہی ہوئے تھے اب تصویری ثبوت بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ان آڈیو ویڈیو کلپس میں بھاری رقوم کی لین دین ہوئی ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں کس کس کا نام لیا جائے بڑے بہادر بے باک اور نڈر صحافیوں کے نام بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے والوں کی لسٹ میں شامل ہے۔ایسے معتبر لوگوں کے نام لیتے ہوئے بھی دکھ تکلیف ہوتی ہے اس لئے میں اس کالم میں ان پردہ نشینوں کے نام نہیں لیتا ہوں۔خوف خدا آڑے آتا ہے کہ کسی کے غیبوں کو اچھا تو نہیں لیکن اپنا مان تو ٹوٹا ہے ہم تو سمجھتے تھے کہ چلو دو چار لوگ تو صحافی برادری میں ایسے ہونگے۔جو قلم کو قوم کی امانت اور ضمیر کی آواز سمجھتے ہونگے لیکن صد افسوس کے سارے کے سارے گندے انڈے نکلے۔دکھ اسکا بھی ہے کہ ایک نہایت گھٹیا بلیک میلر کے ہاتھ بکے جس نے فقط آڈیو ریکارڈنگ پر اکتنا نہیں کی بلکہ ویڈیو ثبوت بھی تیار کئے ہوئے تھے کیونکہ آڈیو کو تو جسٹس(ر)نثار ثاقب کی طرح کہہ دیتے کہ یہ میری آواز نہیں لیکن ویڈیو اور آواز ایک ساتھ ہو تو مکرنا مشکل ہوجاتا ہے۔صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے اوراسے کسی بھی معاشرے کے ضمیر سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن اگر ضمیر بھی بازار میں بک جائے تو وہ معاشرہ وہ قوم بے ضمیر ہوجاتا یا ہوجاتی ہے۔اس سے پہلے ملک ریاض نے ہی خبر دی تھی کہ کئی بڑے صحافی بھی اسمبلیوں کی تنخواہوں پر چل رہے ہیں۔کچھ عرصہ بعد بحریہ ٹائون کے اکائونٹس سے یہ رقوم صحافیوں کے اکائونٹس میں منتقلی کی تفصیلات کے ساتھ اخباروں کی زینت بن گئی۔حد یہ تھی کہ انکے اکائونٹ نمبر بھی دیئے گئے تھے۔اگر تو جن کے نام لئے جارہے ہیں انہوں نے واقعی ملک ریاض سے مالی فوائد لئے ہیں۔تو انہیں اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کے سامنے اپنے جرم کا اقدار کرتے ہوئے معافی مانگنی چاہئے اگر کوئی صداقت نہیں ان الزامات میں تو پھر ڈٹ کے الزامات کو رد کریں پریس کانفرنس بلا کر اپنا موقف دیں۔انکی خاموشی نہایت تکلیف دہ ہے۔اس طرح کے الزامات پر خاموشی اقرار جرم ہے۔اس بدعت کا آغاز ہماری ایجنسیوں نے کیا تھا اور جس کا آغاز جعلی امیر المومنین جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے ہوا تھا۔پیش اماموں اور مولویوں کو خریدہ گیا سیاستدانوں کو سرکاری خزانے سے بھاری رقوم دی گئیں۔تاکہ اپنی مرضی کی سیاست کروائی جائے اور پھر صحافیوں کو لفافے پہنچا کر انہیں بھی اپنا ضمیر بیچنے کی راہ دکھائی گئی لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اب خود جرنیلوں پر ملکی راز غیر ملکی قوتوں کو بیچنے کے الزام لگا کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کورٹ مارشل کے ذریعے پھانسیوں کی سزائیں بھی سنائی جارہی ہیں۔دوسروں کیلئے گڑھے کھودنے والے اب دھڑا دھڑ ان گھڑوں میں گرنے لگے ہیں۔گمشدہ لوگوں کے لواحقین صبح شام اپنی جھولیاں پھیلائے انکے پیاروں کو انسے جدا کرنے والوں کو گڑا گڑا کر بددعائیں دے رہے مطلوموں کی آواز عرش پر تیزی سے پہنچتی ہے۔حضرت علی کا قول ہے کہ غیر اسلامی ریاست تو قائم رہتی ہے بے انصاف اور ظلم پر مبنی حکومتیں اور ریاستیں جلد یا بدیر تباہی کا سامنا کرینگی۔آخر میں قارئین کیلئے احمد فراز کا قلم کے تقدس کے متعلق اظہار پیش کرتا ہوں۔جو انہوں نے اپنی مشہور نظام محاصرہ میں کیا تھا۔میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی جو بندگی کا بھی ہر دم حساب ڈالتا ہے۔میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے، یقین ہے مجھے میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا۔
٭٭٭