اگرتلہ سازش کیس جب 1968 ء میں منظر عام پر آیا تھا تو سارے پاکستان میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی، یہ کوئی معمولی بات نہ تھی کہ ملک کے ایک سیاسی رہنما شیخ مجیب الرحمن اپنے 35 ساتھیوں کے ہمراہ جن میں دو سی ایس پی آفیسر ز اور نیوی کے ایک کمانڈر معظم حسین شامل تھے مشرقی پاکستان کو مسلح جدوجہد کے ذریعہ مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اگرتلہ سے بھارت کے شہر ٹریپورہ گئے تھے، جب اِس کیس کی کاروائی ڈھاکا کنٹومنٹ میں شروع ہوئی تو ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے آسمان گرنے والا ہو .ڈیفنڈنٹ معظم حسین نے اپنا بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے فوجی اُن پر اور اُن کی بیگم پر تشدد کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھی تھی، اُن کی بیگم کی شلوار میں پاکستانی فوجی چوہے چھوڑ دیا کرتے تھے، ڈھاکا شہر سے نکلنے والا مشہور اخبار ”دی آبزرور ” جسے بنگلہ دیش کی آزادی کا ترجمان کہنا بے جا نہ ہوگا معظم حسین کے بیان کو من و عن دوصفحے میں شائع کیا تھا، مرحوم صدر ایوب خان اور اُنکے نام نہاد مشیر توقع تو یہ کر رہے تھے کہ اگر تلہ سازش کیس کے منظر عام پر آنے کے بعد مشرقی پاکستان کے بنگالی کی رائے عامہ شیخ مجیب الرحمن اور اُن کی جماعت کے خلاف ہو جائیگی، اور ایوب خان زندہ باد کا نعرہ بلند ہونا شروع ہوجائیگالیکن اگرتلہ سازش کیس کے شرکا کے بیانات کے منظر عام پر آنے کے بعد حالات مزید مخدوش ہونا شروع ہوگئے ، جلاؤ گھیراؤ میں شدت آنے لگی، فوجی حکومت اور ایوب خان کی آمریت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا، رہی سہی کثر اگر تلہ سازش کیس کے ایک ڈیفنڈنٹ سرجنٹ ظہورالحق کے پاکستانی فوجی کے ہاتھوں بے رحمانہ اور ظالمانہ قتل نے کردیا۔ سارا مشرقی پاکستان فوج کے خلاف ہوگیا، اِن حالات میں ایوب خان کیلئے اور کوئی چارہ نہ رہ گیا اور اُنہوں نے 22 فروری 1969 ء کو غیر مشروط طور پر اگر تلہ سازش کیس واپس لے لیا اور شیخ مجیب الرحمن آزاد کر دیئے گئے۔اِسی مفروضہ کو اگر سر تسلیم خم کر لیا جائے کہ حکومت پاکستان کسی بھی اپنے شہری پر سنگین سے سنگین جرم عائد کرنے کی مجاز ہے ، اور اُسے یک جنبش قلم سنگین سے سنگین جرم کو واپس لینے یا معاف کرنے کا حق بھی حاصل ہے، اُسے پاکستان کی سینیٹ یا قومی اسمبلی کی کسی کمیٹی کی منظوری یا نا منظوری کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے. اگرتلہ سازش کیس دِن کے اجالے کی طرح اِس امر کا واضح ثبوت ہے۔
تاہم سابق وزیراعظم عمران خان پر عائد ہونے والے بیشتر جرائم سنگین نہیں بلکہ معمولی حیثیت کے ہیں، مثلا”گذشتہ کل اُن پر اور اُن کی بیگم پر یہ فرد جرم عائد کیا گیا کہ اُن کی شادی غیر قانونی تھی، سب سے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شادی غیر قانونی طور پر انجام پارہی تھی تو ملا نے نکاح کیوں پڑھایا تھا، اور دوسرا یہ کہ شادی کے رجسٹریشن کرنے کا ادارہ اتنا بھونڈا کیوں ہے جو غیر قانونی طور پر انجام پانے والی شادی کا پتہ لگانے میں ناکام رہ جاتا ہے،مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ عمران خان کی بیگم بشری بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا نے مذکورہ شادی کے چھ سال بعد اُن لوگوں پر یہ الزام لگایا کہ اُنہوں نے عدت کے پورے ہونے سے قبل شادی کر لی تھی جو غیر شرعی تھی. ایک جج نے اِس جرم کے مضمون کو تحریر کیا تھا اور اڈیالہ جیل کے اندر خود اُسے پڑھ کر سنایا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان پر عائد ہونے والے سارے الزامات اِسی طرح کے ہیں جسے کسی سرکاری ملازم نے ججوں کے مشورے سے اُن پر لگائے ہیں، سائفر کیس اُن میں سے ایک ہے. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن پر اور اُنکی پارٹی کے رہنماؤں پر ایک ہی الزام پر متعدد مرتبہ فرد جرم عائدکئے جارہے ہیں، سائفر کیس کا فرد جرم اُن پر ایک اسپیشل کورٹ نے گذشتہ سال 23 اکتوبر کو بھی عائد کیا تھا، جس کا لب ولباب یہ تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے آفیشل سیکرٹ کو افشاں کرنے کی کوشش کی تھی، اُنہوں نے اُس سائفر کو منظر عام پر لے آیا تھا جسے پاکستان کی ایمبیسی نے واشنگٹن سے اُنہیں روانہ کیا تھا. سابق وزیراعظم عمران خان نے اُس کیبل (سائفر ) سے پاکستان کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ اُن کی حکومت بیرونی سازش سے معزول ہوئی ہے،اُن کے ساتھ شاہ محمد قریشی پر بھی فرد جرم عائد کیا گیا تھا جو اُس وقت پاکستان کے وزیرخارجہ تھے،فرد جرم عائد کرنے کی کاروائی اڈیالہ جیل میں وقوع پذیر ہوئی تھی. تاہم روز اول سے ہی سائفر کے بے نقاب ہونے کی باتیں بحث کا موضوع بن گئی تھیں، آئی ایس آئی کے زیر ماتحت ادارہ انٹر سروسز انٹیلی جنس سیکریٹریٹ نے خود واضح طور پر یہ اعلان کردیا تھا کہ بر مخالف سابق وزیراعظم عمران خان پر سائفر کیس کے الزامات عائد کرنے کے اُن کے ادارے کے یہ تحفظات ہیں کہ اِس کی وجہ کر حکومت کے سیکرٹ کمیونیکیشنزمیں کوئی بھی آنچ نہیں آئی ہے،اِسی کیس کے کاروائی کے دوران ایک معزز جج نے تبصرہ کرتے ہوے کہا تھا کہ عمران خان نے سائفر کی کاپی کو مخص دکھایا تھا ، اُنہوں نے اُسے کسی کو پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
بانی پی ٹی آئی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کے کرپشن کا کیس بھی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے جیسا کہ عمران خان کے مخالفین پاکستان کے عوام کو یہ باور کرارہے ہیں کہ اُنہوں نے یہ رقم غبن کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ رقم حکومت برطانیہ سے پاکستان کو واپس کی گئی تھی جو برطانیہ نے اُسے ریئل اسٹیٹ ٹائکون ملک ریاض کی ناجائز ذرائع سے حاصل کی ہوئی رقم باور کیا تھا. عمران خان کی حکومت نے اُس رقم کو ملک ریاض کو براہ راست واپس کرنے کے اُسے اُن کے خلاف مختلف مقدمات کے حرجانے کی ادائیگی کیلئے استعمال کی تھی. القادر ٹرسٹ کو ملک ریاض نے جو بھی زمین دی تھی اُس کی انچ اِنچ عمران خان نے یونیورسٹی کی تعمیر کیلئے استعمال کرنا تھا یا وہ کرینگے ، اِس لئے عقل و دانش کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوے عمران خان کو بحیثیت ایک آزاد شخص کے الیکشن میں حصہ لینے کا بھر پور موقع فراہم کیا جائے۔