پاکستان پر مایوسیوں اور گمراہوں کا راج !!!

0
54
رمضان رانا
رمضان رانا

پاکستان میں ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کہ ملک رہے گا یا نہیں جس میں سیاستدان، جنرل، جج اہلکار بھی شامل ہیں۔ جس سے لگتا ہے کہ کسی منصوبہ بندی پر عمل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر افواہوں مایوسیوں گمراہیوں اور قیاس آرائیوں کاراج ہے۔ جس نے ہر شہری کو پریشان کردیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بقول چودھری اعتزازاحسن کے ریاست ایک ماں ہوتی ہے جس کا ایک خاندان ہوتا ہے جو ہمیشہ اپنے خاندان کو متحد رکھتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں بے تحاشہ بے روزگاری مہنگائی بھوک ننگ کرپشن رشوت کا دور دورہ ہے جس کا حل دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ ملک میں کوئی عوام دوست پارٹی نہیں ہے جو غریبوں مزدوروں کسانوں پر مشتمل ہو جس کی قیادت ان کے اپنے درجے کے لوگ ہوں جن کو معلوم ہو کہ غربت، افلاس کیا ہوتی ہے۔ جس کی نایابی یا کامیابی کی وجہ سے ملک ٹوٹنے کے افواہیں جنم لے رہی ہیں جبکہ غربت افلاس بے روزگاری اور مہنگائی بھارت بنگلہ دیش اور افغانستان میں بھی ہے۔ مگر ان ممالک میں ٹوٹنے اور پھوٹنے کا کوئی ذکر نہیں ہے لہذا ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک بھر غربت، افلاس، جاگیرداری، اجارہ داری کے خلاف تحریک چلے جس میں ملک کی80فیصد غریب عوام کو حقوق میسر آئیں تاکہ ملک توڑنے باتیں کی جائیں پاکستان ٹوٹنے کا ایک تجربہ ہوچکا ہے جس سے باقی ندہ پاکستان دنیا کا کمزور ترین ملک بن کر رہ گیا ہے۔ جو بھی شخص ملک توڑنے یا ٹوٹنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ دراصل انسانیت کے دشمن ہیں جو غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے حامی نہیں ہیں جن کی خواہش ہوگی کہ ان کی چھوٹی چھوٹی راج دہانیاں قائم رہیں۔ چونکہ اتحاد سے امریکہ چین، روس اور بھارت جیسے ممالک مضبوط نظر آتے ہیں ایک سابقہ سوویٹ یونین ٹوٹا تو روس کمزور پڑ گیا اگر پاکستان مزید ٹوٹا تو پھر اس خطے کا حشر عربوں اور افریقہ سے زیادہ بدتر ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ اسی ریاست کے اندر جدوجہد کی جائے عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑی جائے۔ ملک میں قدیم استحصالی نظام کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی جائے جس طرح مائوزے تنگ اور لینن کے بادشاہوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کیخلاف جنگ لڑی تھی کہ جس کی بنیادوں پر آج روس اور چین دنیا کی طاقتیں کہلاتی ہیں چونکہ پاکستان میں تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کا تعلق سرمایہ داروں جاگیرداروں، وڈیروں خانوں، سرداروں اور رسہ گیروں اور اجارہ داروں ملک سے ہے۔ شہریوں پر مختلف اندازوں سے مسلط ہوتے چلے آرہے ہیں۔ جن کی وجہ سے پورے ملک میں غربت اور افلاس کا غلبہ ہے کہ آج مزدور اور کسان کے حق سلب ہوچکے ہیں۔ کسان سارا سال محنت کرکے فصلیں اگاتا ہے مگر پاکستان کے بچے بھوکے سوتے ہیں مزدور بے چارہ ٹھیکیداری نظام کا غلام بن چکا ہے جس کو روزانہ امریکی غلاموں کی طرح بیچا جاتا ہے جن کے کوئی حقوق نہیں ہیں جو غربت اور افلاس کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پرمجبور ہے تاہم پاکستان میں کسی انقلابی سوچ اور اصلاحاتی نظریہ کے حامل پارٹی اور قیادت کی شدید ضرورت ہے۔ جن کا تعلق عام عوام سے ہو جو لوگوں کے دکھ درد سمجھتی ہو۔ تب جا کر عوام کے مسائل کے حل ہونگے جس طرح بھارت میں عام آدھی پارٹی نے جنم لیا۔جس کی قیادت نے بھارتی دارالخلافہ دہلی اور پنجاب میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ اگر عوام نے بنی گالہ کے محلوں زمان پارک کے چوباروں، جاتی امراء کی جاگیرداروں اور بلاول ہائوسز کے بنگلوں میں قیام پذیر قیادتوں پر انحصار کیا تو عوام کا یہی حشر ہوگا جو ہو رہا ہے جنہوں نے ہر قیادت کو پرکھا ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے صوبوں اور مرکز میں کیا ہے جس کے لئے لازم ہے کہ عوام مجوزہ حادثاتی قیادتوں سے پوچھیں کہ انہوں نے دس سالہ پختونخواہ پانچ پانچ سال پنجاب اور سندھ میں کیا کارکردگی کی ہے جن کی وجہ سے ملک میں غربت اور افلاس کا طوفان آیا ہے جس کے لئے ضروری ہے۔ کہ عوام جذباتوں اور گمراہوں سے نجات پاکر سوچیں کہ ہر قیادت نے عوام کے لئے کیا کیا ہے۔ جس کا دنیا بھر میں احتسابی نظام ہے کہ جس کے ذریعے عوام قیادتوں کو اقتدار میں لاتی اور بھگاتی ہے بہرحال دنیا بھر میں فسطائیت ابھر کر آرہی ہے جس کی زد میں امریکہ، بھارت اور پاکستان آچکے ہیں۔ امریکہ میں ایک نسل پرست مکار، جھوٹا اور کرپٹ شخص ٹرمپ دوبارہ صدر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے بھارت میں نریندر مودی تاحیات وزیراعظم بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک فسطائی نظریہ کا حامل شخص عمران خان کو دوبارہ لانے کی سازشیں جاری ہیں۔جن کو جعلی جیل عالی شان جیل خانہ میں تمام تر سہولتوں میں رکھا ہوا ہے۔ جن کے دور فسطائیت میں پاکستان پر دوگنے قرضے، سی پیک کی بندش اور اسٹیٹ بنک آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا تھا۔ وہ آج پھر پختونخوا، پر تیسری بار قابض ہوچکا ہے۔ جس کا حال پشتوں ہل بنا سکتے ہیں کہ پٹھان جنت میں رہتے ہیں یا دوزخ میں جن کا پشاور جنت ہے یا دوزخ ۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here