اسلام آباد (پاکستان نیوز)حکومت ، فوج اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کی بدولت پاکستان میں الیکشن کا انعقاد غیر یقینی ہو گیا، کبھی سیکیورٹی تو کبھی ناکافی فنڈز کے مسائل آڑے آ رہے ہیں ، سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی نے ملک کو نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے ، پی ٹی آئی، نگران حکومتیں اور وفاقی حکومتیں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں ، الیکشن کے حوالے سے تین جماعتوں میں کوئی اتفاق رائے موجود نہیں ہے ، دوسری طرف اس محاز آرائی کو دیکھتے ہوئے عدالت اعظمیٰ نے بھی الیکشن کی شفافیت میں بدنیتی پر مداخلت کرنے کا اعلان کر دیا ہے، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ اگر شفاف انتخابات میں بدنیتی ہوگی تو سپریم کورٹ مداخلت کریگی۔سپریم کورٹ میں سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے درخواست واپس لینے پر غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے خلاف اپیل خارج کردی۔وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کے قیام کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہوچکا ہے، آرٹیکل218 کے تحت صاف شفاف الیکشن کروانا ہماری ذمہ داری ہے، لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے بیورو کریسی میں تبادلے کرنا بھی الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، نگران حکومت بھی الیکشن کمیشن کی منظوری سے کسی افسرکا تبادلہ کرسکتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صاف شفاف الیکشن کے لیے تبادلوں کا اختیار الیکشن کمیشن استعمال کرتا ہے، ثابت ہوگیا کہ نگران حکومت تبادلے الیکشن کمیشن کی اجازت سے کرتی ہے، الیکشن کمیشن خود بھی نگران حکومت کوافسران کے تبادلوں کے احکامات دے سکتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار بڑا وسیع ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں برابری کا موقع ملنا چاہیے، الیکشن کمیشن کو نگران حکومت کو تبادلوں کا کھلا اختیار نہیں دینا چاہیے، نگران حکومت سے الیکشن کمیشن کو ایسے تبادلے سے متعلق پوچھنا چاہیے، بعض اوقات سپریم کورٹ کی باتوں کو غلط طریقے سے سمجھا جاتا ہے، ہم نے ایک کیس میں کہا کہ 1988 میں ایک ایماندار وزیراعظم تھا، ہماری اس بات کو پارلیمنٹ نے غلط سمجھا، ہم نے یہ نہیں کہا کہ آج تک صرف ایک ہی ایماندار وزیراعظم آیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے آئینی اداروں کو اپنے فیصلوں میں تحفظ دیا ہے، عدلیہ پربھی حملے ہو رہے ہیں، عدلیہ کا تحفظ کریں گے، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جسے سپریم کورٹ تحفظ فراہم کرے گی، الیکشن کمیشن کوآئین کے تحت اختیارات حاصل ہیں جن کا مقصد شفاف انتخابات کرانا ہے، اگر شفاف انتخابات میں بدنیتی ہوگی تو سپریم کورٹ مداخلت کریگی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے جسے آڈیو ٹیپس کے ذریعے بدنام کیا جا رہا ہے، ہم صبر اور درگزر سے کام لیکر آئینی ادارے کا تحفظ کریں گے، آئینی اداروں کوبدنام کرنے والی ان آڈیوٹیپس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ہم ان ٹیپس پر صبر اور درگزر کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ادارے کا تحفظ کریں گے۔دوسری طرف الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حکم کے مطابق انتخابی کمیشن نے 30 اپریل کو پنجاب میں ہونے والے انتخابات ملتوی کر دیے ہیں۔ صوبے میں انتخابات اب آٹھ اکتوبر 2023 کو ہوں گے۔حکم نامے کے مطابق الیکشن ملتوی کرنے کی وجہ امن و امان کی صورت حال اور مالی و انتظامی بحران کو قرار دیا گیا ہے جب کہ صدر مملکت کو اس فیصلے سے اگاہ کر دیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے چھ صفحات پر مشتمل حکم نامے کے مطابق انتخابات کا شیڈول الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 218 کی ذیلی شق تین کے تحت ملتوی کیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن کے بدھ کی رات جاری کیے گئے آرڈر کے مطابق ‘پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق نگران حکومت پنجاب، وفاقی وزارت دفاع، خزانہ اور داخلہ کی امن و عامہ کی رپورٹس کی روشنی میں پیر، منگل اور بدھ کو الیکشن کمیشن کے مرکزی سیکریٹریٹ میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔الیکشن کے انعقاد سے متعلق وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہونے والے مختلف اجلاسوں میں الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ ‘صوبے میں امن وامان کی صورت حال الیکشن کے لیے سازگار نہیں ہے۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔آرڈر کے مطابق فوج الیکشن میں کوئیک رسپانس فورس کے طور پر کام کرے گی۔ کمیشن نے اپنے حکم نامے کے متن میں کہا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے مالی بحران سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔حکم نامے میں صوبے بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ‘وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے پیش کیے گئے حالات کے باعث 30 اپریل کو الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے اس لیے الیکشن کمیشن آٹھ مارچ کو جاری کردہ شیڈول سے دستبردار ہو گیا ہے۔ اب الیکشن آٹھ اکتوبر کو منعقد کرایا جائے گا جس کے لیے مناسب وقت پر نیا شیڈول جاری کیا جائے گا۔حکم نامے میں الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے مختلف فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔آرڈر میں کہا گیا کہ ‘اجلاس میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے اعلان کردہ انتخابات سے متعلق بحث ہوئی جبکہ الیکشن کمیشن کے سامنے رکھی گئی رپورٹس، بریفنگز اور دوسرے مواد کا جائزہ لیا گیا۔دریں اثنا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران حکومت اور اتحادی جماعتوں نے تجویز پیش کی ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے الگ الگ الیکشن کی بجائے ایک ہی روز شفاف انتخابات کو ممکن بنایا جائے، ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات پر بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے کہ حکومت الیکشن سے بھاگ رہی ہے، رانا ثنا اللہ نے کہا ‘آئین میں جہاں 90 روز میں الیکشن کروانے کی پابندی ہے کیا وہاں صاف شفاف الیکشن کے انعقاد کی پابندی نہیں ہے؟ کیا صوبے میں انتخابات کے بعد قومی اسمبلی الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ ہوگی؟ ہم چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں کے الیکشن اکٹھے ہوں اور صاف شفاف ہوں۔انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا ‘اس سے پہلے 60 یا 90 دنوں کے بعد الیکشن نہیں ہوئے؟ 30 اپریل کی تاریخ بھی آئینی مدت کے باہر ہے۔ پنجاب میں الیکشن پہلے ہو گئے تو حکمران جماعت کو برتری ہو گی ، اس طرح کا الیکشن افراتفری، انارکی اور عدم استحکام لائے گا۔وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘عدالتی، سیاسی اور انتظامی بحران پیدا کیا گیا ہے’ اور اس میں مسلسل اضافہ کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا ‘حالات خراب نہیں ہیں لیکن انہیں خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران نے انارکی پیدا کی تاریخ کا حصہ ہے۔وزیر داخلہ نے سابق وزیر اعظم پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ‘دہشت گرد تنظیموں سے منسلک افراد اور شرپسند عناصر زمان پارک میں اسلحے کے ساتھ موجود تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ’مسلح جتھوں کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، سیاسی مبصرین کے مطابق انتخابی کمیشن کے فیصلے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔