نیشنل ایکشن پلان کی سنٹرل ایپکس کمیٹی (این اے پی)نے ملک میں دہشت گردی اور بد امنی پھیلانے والے عناصر کا قلع قمع کرنے کے لئے آپریشن “عزم استحکام” شروع کرنے کی منظوری دی ہے۔چین اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے لئے ساز گار ماحول فراہم کرنے کی خاطر امن دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ تسلسل کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔اس آپریشن کی منظوری کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کی لعنت ریاست کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے ایک نئے سرے سے متحرک اور پھر سے متحرک ہے۔ یہ اہم فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیپ باڈی کے اجلاس کے دوران سامنے آیا جس میں تمام صوبوں اور جی بی کے وزرائے اعلی، سروسز چیفس، صوبوں کے چیف سیکرٹریز کے علاوہ دیگر اعلی سول، عسکری و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے شرکت کی۔ .وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری کردہ سرکاری بیان کے مطابق، انسداد دہشت گردی کے نئے آپریشن کو تمام سٹیک ہولڈرز بشمول صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا ہے۔ آپریشن عزمِاستحکام کی منظوری ملک سے ہر قسم کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے قومی عزم کی علامت ہے۔ آپریشن ایک جامع اور فیصلہ کن انداز میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنیکیکوششوں کے متعدد خطوط کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے آپریشن عزمِ استحکام اہم کردار ادا کرے گا۔ دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی کے لیے سفارتی کوششیں تیز کی جائیں گی۔فورم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا کہ کسی کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آپریشنکی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (SOPs) جاری کیے گئے، جس سے پاکستان میں چینی شہریوں کو جامع سیکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں بہتری آئے گی۔نیپ کمیٹی کا اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک انتہا پسندی کے چیلنج سے نبرد آزما ہے۔سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی رپورٹ کے مطابق، کم از کم 92 فیصد ہلاکتیں اور 86 فیصد حملے، بشمول دہشت گردی اور سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں میں ریکارڈ کیے گئے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملک میں کم از کم 432 اموات پت تشدد واقعات کے دوران ہوئیں اور عام شہریوںاور سیکورٹی اہلکاروں و قانون شکن افراد کے درمیان تصادم سے370 زخمی ہوئے ۔ دہشت گردی کے حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے 245 واقعات ہوئے۔432 ہلاکتوں میں سے 281 عام شہری اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔آپریشن عزم استحکام بلا شبہ ملک کے سرحدی علاقوں میں امن قائم کرنے کی ضرورت پوری کر سکتا ہے۔افغانستان و ایران کی سرحد سے ملحق علاقے مدت سے دہشت گرد عناصر کا ٹھکانہ بنے ہوئے ہیں۔آپریشن کی منظوری کا فیصلہ اگرچہ ایپکس کمیٹی نے کیا ہے لیکن جن علاقوں میں آپریشن ہو گا وہاں کے نمائندے بعض امور پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ممکن ہے اس کی وجوہات سیاسی ہوں لیکن یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کرے۔حکومت اگر معاملے کو حسب روایت عسکری قیادت کی ذمہ داری قرار دیتی رہی تو اس کا مطلب اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہو گا۔عسکری قیادت اپنی ذمہ داریوں سے یقینا واقف ہے اور اسے جس عوامی تائید کی ضرورت ہے وہ سیاسی قیادت فراہم کر سکتی ہے۔کے پی کے میں اکثریتی حمایت رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کی منظوری مسائل کا حل نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر اورجے یو آئی-ایف کے امیر مولانا فضل الرحمان کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماوںنے خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔دونوں نے صوبے میں امن و استحکام کے حصول میں سیاسی جماعتوں کے کردار پر زور دیا۔حکومت اگر سیاسی مفاہمت کا کوئی راستہ تلاش کرتی ہے تو آپریشن کی مخالفت کرنے والوں کو اعتماد میں لینا آسان ہو سکتا ہے۔رواں برس کے آغاز میں عسکریت پسندوں نے پاکستان میں اہم منصوبوں پر کام کرنے والے چینی کارکنوں، سرمایہ کاری اور جغرافیائی اہمیت کے حامل مقامات کو نشانہ بنایا،دہشت گردی کی اس لہر نے چین کو پاکستان میں سکیورٹی پر اپنے خدشات سامنے لانے پر مجبور کر دیا ۔ چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہاکہ “ہم پاکستان سے کہتے ہیں کہ وہ چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کی حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرے۔” چینی شہریوں اور کاروباری اداروں پر زور دیا گیا کہ وہ “اضافی حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔” کچھ عرصہ قبلوزیر اعظم شہباز شریف اور چینی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں بیجنگ نے واضح طور پر آگاہ کیا کہ CPEC کا مستقبل چینی شہریوں اور سرمایہ کاری کے تحفظ پر منحصر ہے۔حکومت اس بات کا جائزہ لے کہ نیا آپریشن شروع کرنے کے بعد اس کے اخراجات ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بین الاقوامی الزامات اور مقامی حمایت کے معاملات کو طے کرنا کیوں اور کس طرح ضروری ہے۔
٭٭٭