جس وقت میرا یہ کالم قارئین کے زیر مطالعہ ہوگا، 21 ویں صدی کا 21 واں سال اختتامی ایام سے گُزر کر نئے سال میں داخل ہو رہا ہوگا، میری جانب سے اور پاکستان نیوز کی ساری ٹیم کی جانب سے قارئین کو نئے سال کی دلی مبارکباد، اس دعا کیساتھ کہ یہ برس ساری دنیا، عالم اسلام، بالخصوص تمام پاکستانیوں کیلئے خیر و عافیت، مسرتوں اور کامیابیوں اور کرونا جیسی وبائوں، عالمی و مقامی سطح پر نفرت و عناد سے نجات کا ضامن ہو۔ اس وقت ذاتی وجوہ کے باعث پاکستان میں ہوں اور نیا سال اپنے اعزیز و اقربائ، احباب کے ہمراہ منائوں گا۔ پاکستان میں میری پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ سماجی اور احباب کی خوشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان سلسلوں میں اہم و قابل ذکر ”کڑی” میرے دیرینہ رفیق اور مقتدر ہوٹل انڈسٹری کے لیجنڈ رانا زاہد حمید کی لاڈلی صاحبزادی کی شادی کے مختلف پروگرام جاری و ساری ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے مختلف رسومات کی تقاریب منعقد ہو رہی ہیں، مایوں، مہندی کی رسومات یہاں کے خوشگوار موسم و ماحول میں شاندار انداز سے عالیشان فارم ہائوس، تاریخی بارود خانہ، میاں صلّی کی حویلی میں منعقد ہوئیں۔ ان تقاریب میں نہ صرف امریکہ سے رانا صاحب کے احباب، چاہنے والے اہم و ممتاز افراد و خاندان شریک ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کی اہم مقتدر سرکاری، سیاسی، کاروباری و سماجی ثقافتی شخصیات و فیملیز کی شرکت نے اس ایونٹ کو تاریخی اور یادگار بنا دیا ہے۔ جس اہتمام و احتشام سے رانا زاہد کی چہیتی صاحبزادی کی تقاریب کا انعقاد ہو رہا ہے، اس سے نہ صرف رانا صاحب کی محبت آمیز، پُرخلوص شخصیت کا ثبوت سامنے آیا ہے بلکہ یہ تقریب ایک تاریخی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ ہماری بہت سی دعائیں عروسی جوڑے اور دونوں خاندانوں کیلئے ہیں۔ اللہ رب العزت قبول فرمائے۔ آمین۔
ہم نے درج بالا سطور میں خوشگوار ماحول و موسم کا ذکر کیا ہے لیکن سیاسی موسم کی گرما گرمی میں حدّت بڑھتی ہی جا رہی ہے گزشتہ ہفتہ سیاست میں افواہوں، دعوئوں اور جوابی دعوئوں کا طوفان برپا رہا اور حکومت واپوزیشن دونوں ہی اس کا حصہ بنے رہے۔ خیبرپختونخواہ میں حکومت کو جھٹکا لگنے کے بعد جہاں کپتان نے فوری طور پر پی ٹی آئی کی تمام تنظیمیں تحلیل کر کے دس گھنٹے سے بھی کم مدت میں دوبارہ تشکیل نو کر دی وہ اپنی جگہ حیرت اور سرعت کا سبب تو سمجھا ہی گیا، ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا کہ سپریم کمیٹی میں وہی لوگ نامزد ہوئے جنہوں نے اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھانجوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کو ٹکٹوں سے نوازا تھا۔ اُدھر اپوزیشن پی ٹی آئی کی اس شکست کو لے کر یہ تاثر قائم کرنے کیلئے کوشاں نظر آتی ہے کہ حکومت کے سر سے مقتدرین نے ہاتھ اُٹھا لیا ہے اور نیا سال حکومت کے خاتمے کی نوید دیگا۔ ہمارے ایک انتہائی منجھے ہوئے سیاسی دوست نے بُغض عمرانیہ میں پیشگوئی کر دی ہے کہ اپریل تک یہ حکومت رُخصت کر دی جائیگی۔ ہمارے ان دوست کے مطابق مقتدرین عمران خان سے مایوس ہو کر تبدیلی پر غور کر رہے ہیں۔
مرزا غالب کا مشہور شعر یاد آرہا ہے ”دیکھئے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض، اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے”۔ آپ اس شعر کی تشریح کریں تو عشاق وہ سیاستدان ہیں جو کئی بار اقتدار کے مزے لُوٹ کر بھی پھر اقتدار کے بھوکے ہیں، ہندو دھرم کے مطابق بتوں کی اچھا یعنی رضا مندی سے کام بنتے ہیں تو بُت کون ہوئے؟ فیصلہ ساز اور برہمن کا کردار ادا کرنے والے سیاسی جانبداری رکھنے والے صحافی، میڈیا اینکرز اور تجزیہ کار جو اپنے ممدوح سیاسی رہنمائوں کے غلط اور ناقابل یقین دعوئوں اور شوشوں کو حقیقت کا روپ دینے میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے تقریباً سارے کرنٹ افیئر شوز دو بے سروپا دعوئوں سے متعلق ہی جڑے رہے جو مسلم لیگ کے رہنما ایاز صادق اور سیاست کے گرو گھنٹال آصف زرداری کے تھے۔ ایاز صادق کی میڈیا سے گفتگو میں یہ بات کہ میاں صاحب واپس آرہے ہیں اور زرداری کا دعویٰ کہ مجھ سے فارمولا دینے کا سوال کیا گیا تو میں نے کہا پہلے اسے گھر بھیجو پھر بات کرنا، دونوں بعید از قیاس ہیں بقول شیخ رشید جن کے حوالے سے زرداری نے بات کی ہے ان کے پاس اگلے بیس سال کے فارمولے موجود ہوتے ہیں۔
جہاں تک نوازشریف کی واپسی کا تعلق ہے تو صاحب انگلستان کے قوانین و ماہرین کے مطابق میاں صاحب کی اپیل کے فیصلے میں کم از کم ایک سے ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے ایسے میں میاں صاحب کی واپسی کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ دوسری جانب عدالت عالیہ میاں صاحب کو مفرور قرار دے چکی ہے کوئی سیاسی یا عدالتی معجزہ ہی میاں صاحب کو واپس لا سکتا ہے لیکن معجزے روز نہیں ہوتے ہیں۔ حکومتی وزراء اور ترجمان تو ن لیگ کے اس دعوے کیخلاف بیان بازی اور رد عمل کر ہی رہے ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ وزیراعظم نے کابینہ اجلاس میں رد عمل دیتے ہوئے، مجرم دوبارہ کیسے وزیراعظم بن سکتا ہے۔ ساری جیلوں کے دروازے کھول دینے چاہئیں کہہ کر اس افواہ کو سنجیدہ بنا دیا ہے۔ وزیراعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناطے ہر داخلی، خارجی معاملے سے با خبر ہوتا ہے اور ہر ادارہ ہر ایجنسی سے رابطے میں ہوتا ہے وزیراعظم کا یہ تبصرہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ہم نے پاکستان میں اپنے قیام خصوصاً پنجاب میں یہ تاثر پایا ہے کہ حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عوام گر کسی ایشو پر نالاں ہیں تو سب سے بڑی وجہ مہنگائی اور گورننس کی کمزوریاں ہیں۔ ہمارا مشاہدہ یہ رہا ہے کہ لوگ صاحب ثروت ہیں رہائش، سہولیات و آسائشوں کی فراوانی کے حامل ہیں انہیں فکر نہیں ہے کہ کون آئے، کون جائے۔ وہ ہر دور اور ہر وقت با اثر ہیں، البتہ محدود آمدنی اور غربت میں محصور بہت بڑے طبقات موجودہ حالات سے انتہائی پریشان اور نالاں ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں یقیناً حکومت کی مقبولیت پر اثر پڑنا ایک فطری عمل ہو سکتا ہے۔ پختونخواہ میں شکست کی وجہ تو خود وزیراعظم اور حکومتی ارباب نے مہنگائی کو قرار دیا ہے۔ منی بجٹ لانے اور عوام پر اس کا بوجھ ڈالنے سے حکومت پر اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں۔ (بشمول پختونخواہ کا دوسرا مرحلہ۔) عام انتخابات بھی زیادہ دور نہیں ہیں۔ اپنی سابقہ متعدد معروضات کو دہراتے ہوئے ہماری کپتان سے یہی اپیل ہے کے عوامی فلاح کیلئے عوام کی بنیادی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے فوری اقدام پر توجہ دیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غالب کے شعر کے مؤجب اقتدار کے عشاق، بتوں سے اس نئے سال میں فیض اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں کامیابی کی اصل کنجی عوام کے پاس ہے اور عوام کی حمایت آپ کی کامیابی کیلئے کلید ہے۔
٭٭٭