نئی دہلی(پاکستان نیوز) بھارت میں عدالت عظمی میں آج ایک بار پھر تعلیمی ادروں میں حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف داخل درخواست پر سماعت ہوئی۔ اس دوران درخواست دہندہ کی طرف سے پیش وکیل حذیفہ احمدی نے دعوی کیا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد تقریبا 17 ہزار طالبات نے اسکول چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ڈراپ آوٹ حجاب پر پابندی لگانے کے بعد ہی دیکھنے کو ملا ہے، یعنی حجاب پر پابندی کا اثر مسلم طالبات کی تعلیم پر پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق بدھ کے روز سماعت کے دوران حذیفہ احمدی سے جسٹس سدھانشو دھولیا نے سوال کیا تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی نمبر ہے کہ کتنی طالبات نے حجاب پر پابندی کے بعد اسکول جانا ترک کر دیا ہے؟ اس پر احمدی نے کہا کہ پی یو سی ایل کی رپورٹ کے مطابق 17 ہزار طالبات نے ڈراپ آوٹ کیا اور وہ امتحان میں بھی نہیں بیٹھ پائیں۔ احمدی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی وجہ سے کئی طالبات اسکولی تعلیم سے محروم ہو گئی ہیں۔ وکیل حذیفہ احمدی نے تنوع کو لے کر بھی کئی دلائل سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے۔ انھوں نے کہا کہ کسی کا حجاب پہننا دوسرے کو غلط کیسے لگ سکتا ہے! وہ کہتے ہیں کہ ریاست کا کام تنوع کو فروغ دینا ہے، نہ کہ رسموں پر روک لگانا۔ کسی کو ایسا کیوں محسوس ہونا چاہیے کہ کسی کا مذہبی عمل سیکولر تعلیم یا اتحاد میں رخنہ ڈالتے ہیں؟ اگر کوئی حجاب پہن کر اسکول جائے تو کوئی دوسرا کیوں ناراض ہو؟ دوسرے طالب علم کو مسئلہ کیوں ہونا چاہیے؟ اگر یہ اکساتا ہے، تو آپ کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ کسی کو دھمکانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ حکومت شاید چاہتی ہے کہ کیمپس میں ایسا ہی ہو۔ یہ کہنا کہ مجھے کسی اور کا حجاب پہننا منظور نہیں ہے، یہ آئین میں شامل بھائی چارہ کی سوچ کے برعکس ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی اس سوچ کو وسعت دیتی ہے کہ اسکول تنوع اور ناقدانہ سوچ کو قبول کرتے ہیں۔