نائن الیون سے افغانستان تو جنگ کا شکار ہوا ہی لیکن پاکستان کو بھی اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی ، سابق صدر اور آرمی چیف پرویز مشرف نے امریکہ کے جنرل رمز فیلڈ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے انہیں افغانستان پر حملہ آور ہونے کی اجازت دے دی جس کے بعد افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی تو ہوئی مگر پاکستان میں بھی دہشتگردوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دی ، پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز ، دفاتر ، ایف آئی اے سائبر ونگ اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ، دہشتگرد اس قدر مضبوط تھے کہ انھوں نے جی ایچ کیو تک پر حملہ کر دیا تھا گویا پاکستان میں اندرونی جنگ چھڑ چکی تھی جس میں 70ہزار کے قریب لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ اپنی مدت پوری کرکے بدلتے رہتے ہیں لیکن جنرل حمید گل کے بعد جنرل فیض نڈر اور بہادر سربراہ کے طور پر سامنے آئے ہیں جوکہ رات گئے افغانستان کے جنگ زدہ صوبے پنج شیر کی فضائوں سے ہوتے ہوئے کابل ائیرپورٹ پر لینڈ کر گئے جس سے پاکستانی سفارتی عملہ حیران رہ گیا جبکہ اس موقع پر جنرل فیض مسکراکر چائے کی چسکی لے کر صحافی کو یہ کہتے سنے گئے کہ سب بالکل ٹھیک ہو جائے گا ۔
اگر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے چیف ولیم جے برنز کے پاکستان میں دس روز میں دو مرتبہ آنے کو ایک بڑی خبر سمجھا جا رہا تھا تو دس اور گیارہ ستمبر کو خطے کے آٹھ اہم ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان کا اسلام آباد میں ملنا یقینا ایک کہیں زیادہ بڑی اور اہم خبر ہے۔دو دن پر محیط اس طویل و تفصیلی ملاقات میں افغانستان میں امن و استحکام کے ساتھ ساتھ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی بنانے کے اعتبار سے یہ نہایت اہم بیٹھک ثابت ہوئی۔پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جس نے 40 سال سے افغانستان اور یقینا پاکستان میں سکیورٹی سے لے کر جہاد اور دہشت گردی کے نام پر خون کی ہولی کے دوران اپنے سمیت بہت سے ممالک اور عناصر کو بڑے قریب سے دیکھا۔ اس نے کچھ برس پہلے یہ سبق بھی سیکھا کہ یہ جنگ سب مل کر ہی جیت سکتے ہیں یہ خون کی ہولی سب مل کر ہی ختم کر سکتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ ستمبر 10 اور 11 کو دیکھنے میں آیا۔
ستمبر کی 10 اور 11 کو آئی ایس آئی نے آٹھ ممالک کی انٹیلی جنس سربراہان کی دو روزہ میٹنگ بھی ایک انٹیلی جنس آپریشن کی طرح منعقد ہونے تک خفیہ ہی رہی۔ جب اجلاس شروع ہوا تو تب اس خبر کو سوشل میڈیا کے ذریعہ سے دنیا تک پہنچایا گیا۔ شاید یہ اپنی نوعیت کی پہلی میٹنگ تھی جس میں چین، روس، ایران، تاجکستان، ازبکستان اور پاکستان کے انٹیلی جنس ایجنسیز کے سربراہان نے شرکت کی۔ یہ آٹھ ممالک جن میں سے دو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور بین الاقوامی فیصلوں میں اہم آواز اور ویٹو کا حق بھی رکھتے ہیں کے ساتھ ساتھ ان آٹھ ممالک کے تعلقات میں گاہے بگاہے سکیورٹی کے معاملات پر آپس میں کشیدگی کوئی راز کی بات نہیں۔
افغانستان اور دہشت گردی کے حوالے سے خاص طور پر روس، چین، ایران اور پاکستان میں اختلافات رہے ہیں۔ سب معاملات کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد میں آٹھ انٹیلی جنس ایجنسی کا اس موقع پر امن اور استحکام کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا یقینا ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ان آٹھ ممالک کو ایک مشترکہ پالیسی بنانے کے لیے دو اہم معاملات پر مشترکہ کام کرنے ہیں۔ پہلے یہ کہ تمام ممالک دہشت گردی میں ملوث گروہوں اور تنظیموں کی نشاندہی کریں اور تمام ممالک ایک دوسرے کے دہشت گردوں کو دہشت گرد اور اپنا دشمن بھی سمجھیں۔ دوسرا معاملہ ان تمام ممالک کو مختلف دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں خصوصا جو افغانستان میں موجود ہیں اپنا انٹیلی جنس مواد مشترکہ طور پر افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت تک پہنچانا ہوگا۔
ان تمام ایجنسیز کی میٹنگ، مقاصد اور طریقہ کار کے حوالے سے شاید اس خطے کے لیے انقلابی قدم ہے۔ اس سے ناصرف افغانستان کے حوالے سے دہشت گردی سے نمٹنے پر پیش رفت متوقع ہے بلکہ پورے خطے میں جن ریاستوں نے تاریخی طور پر دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کا آلہ سمجھا شاید اس میں بھی اب تبدیلی کا امکان نظر آتا ہے جہاں خطے کے ممالک اس وقت استحکام اور امن کے لیے اوور ٹائم مشترکہ حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں سب سے بڑی ذمہ داری بہرحال طالبان کی عبوری حکومت کی ہے۔ جو ان کے دوست تھے اور شاید کسی حد تک لیکن خطے کے لیے دہشت گردی کا اور اب بھی سبب بن رہے ہیں، ان کی بابت طالبان کو اپنی پالیسی پر گہری نظرثانی کرنی ہوگی۔
اگر کل تک پاکستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا عموما بے بنیاد الزام لگایا جا رہا تھا تو آج پاکستان جس دور اندیش اور مثبت سوچ کا اور پالیسی کا مظاہرہ کر رہا ہے اس سے کسی معروضی سوچ رکھنے والے کو انکار نہیں ہوگا۔