کتنی خوبصورت بات کہی تھی لبنان کے خلیل جبران نے ”لوگ مذہب کے لئے لڑینگے ، جھگڑیں گے، مذہب کی حمایت میں لکھیں گے، لیکچر دیں گے اور اس کی خاطر مر جائینگے، لیکن اس کے (مذہب) مطابق زندگی بسر نہیں کریں گے۔” ایک اور قول ہے مولانا رومی کا کہ ان سے کسی نے پوچھا ”زہر کیا ہے؟ انہوں نے کہا ”ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو جائے زہر ہے، جیسے قوت، اقتدار، دولت، بھوک، لالچ، محبت اور نفرت،”
یہ بات ہم نے پچھلے دنوں انڈیا کے ایک منافق طارق فتح کی گفتگو سن کر جو انہوں نے 2019ء میں اندور انڈیا میں ایک ادبی اجتماع میں کہی تھی یا کہی تھیں سن کر لکھنا پڑتی ہے۔ آپ کے اردگرد اور ہمارے سامنے بڑے بڑے منافق ہیں آئے اور گئے لیکن طارق فتح اپنی طرز کا منافق ہے۔ وہ دہریہ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ بات اس نے نہیں کہی ہے جس طرح انڈو پاک میں اور فلمی دنیا میں شہرت پانے والے جاوید اختر نے کہی تھی اور آج بھی وہ فخریہ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ ادب شاعری اور خاندانی پرم پراہ نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ وہ بھی پاکستان دشمنی میں بلا ضرورت بولتے ہیں اور حکومت ہند انہیں اس کا کوئی معاوضہ نہیں دیتی۔
پہلے طارق فتح کی بات ہو جائے جو خود کو صحافی بھی کہتے ہیں لیکن صحافت (آج کی نہیں) کی وہ تعریف نہ کر سکیں یہ ہمارا دعویٰ ہے کہ کسی واقعہ کسی حقیقت کسی تاریخ کو جھٹلا دیں جو دنیا جانتی ہو۔ ہمیں نوازشریف سے مطلب نہیں جن کے لئے ہمارے پاکستانیوں نے مشہور کر رکھا ہے ” مودی کا یار ” لیکن ان سے ان کی یاری سے زیادہ رشتہ داری بھی ہے ہمیں پاکستان کے خلاف دشمنوں میں بیٹھ کر باتیں کرنے والے کبھی اچھے نہیں لگے۔ ان کے لئے کہاوت ہے ” جس تھالی میں کھائیں اس میں چھید کریں” چلتے چلتے راستے میں ایسے کئی نام یاد آ جاتے ہیں جو کھاتے اور فائدہ اٹھاتے پاکستان سے ہیں لیکن دوسرے ملکوں میں پاکستان سے لوٹی دولت سے خریدے محلوں میں بیٹھ کر کتوں کی طرح غراتے ہیں۔
بات ہم کر رہے تھے طارق فتح کی جو 20نومبر1949ء میں کراچی میں پیدا ہوئے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ نرگس ٹیاں(چائے والی نہیں) سے شادی کی۔ پیشہ سے صحافی ہیں اور مصنف بھی اور پاکستانی کناڈین کہلاتے ہیں مذہب اور ریاست کی یکجوئی کے خلاف ہیں۔ اسلامی شریعہ قانون کے بھی خلاف ہیں، بے حد لبرل ہیں کہ وہ اسلام کو لبرل بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں کہتے چلیں اسلام اسلام ہے صرف اسلام اور بہت ہی آسان کہ اسے مغرب نے بھی اپنے معاشرے میں اپنایا ہے۔ یہودی اور کرسچین ہوتے ہوئے جہاں بھی ہندوستان کے خلاف تحریک یا اجتماع ہوتا ہے ہمارا مطلب ہندوستان کی جارحیت کے خلاف وہاں یہ حضرت موجود ہوتے ہیں اور میڈیا کے لوگوں کو تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ آخری دفعہ بنفس نفیس انہیں دو سال پہلے مین ہٹن میں سکینڈ ایونیو اور 44اسٹریٹ پر ٹیلیفون بوتھ میں گھسے مقامی انڈیا میڈیا کے لوگوں سے باتیں کرتے دیکھا تھا، شور کافی تھا ایک ہجوم تھا پاکستانیوں اور سکھوں کے ملاپ سے انڈیا کی کشمیر میں جارحیت کے خلاف تھا۔ ہم قریب کھڑے رہے لیکن سنائی نہیں دیا کیا منمنا رہے تھے سمجھ میں نہیں آیا۔ اور جب اندور لٹریری فیسٹیول میں سنا تو بھی بات سمجھ نہ آئی کہ یہ شخص مودی کو خوش کررہا ہے یا وہاں بیٹھے ہوئے باشعور ناظرین کو متاثر کررہا ہے۔ اپنی بے تکی اور جھوٹی باتوں سے نہ ہی کسی نے خراج تحسین پیش کیا۔ ہندوستان کا باشعور طبقہ جانتا ہے کہ کشمیر میں مودی فساد برپا کئے ہوئے ہے وہ ابھی تک اپنے اس رویئے سے چل رہا ہے جب کو گجرات کا وزیراعلیٰ تھا ۔2014ء میں بی جے پی ہندوستان میں ایک شیطان جماعت کے نام سے مشہور ہے جس نے ہندوستان میں نہتے اور کمزور غریب مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل چکی ہے ۔ انتہا پسند ہندو اس کے ساتھ ہیں زیادہ تعداد غنڈوں اور نچلے طبقے کے لوگوں کی ہے ۔ مودی انڈیا کی ہر ایسی جماعت کا نمائندہ ہے جن کا منشور مسلمانوں کا صفایا کرنا ہے جس کے لئے وہاں ”راشٹریہ سوئم سوک سنگھ” RSS بنائی گئی ہے یہ وولنٹیر جماعت ہے اور مودی کے علاوہ طارق فتح جیسے بدذات ان کے ہم خیال ہے اور ان کے ایجنڈے کو سپورٹ کرتے ہیں۔
طارق فتح کو معلوم ہے کہ 16 لاکھ نہتے کشمیریوں کو چھ لاکھ فوجیوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے سینکڑوں ان کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔23سالہ مظفر وانی بھی ان کی گولیوں سے شہید ہوا ہے لیکن پھر بھی وہ پاکستانی فوج کو اپنی نفرت آمیز گفتگو کا نشانہ بناتا ہے یہ کہہ کر کہ بلوچ رجمنٹ میں ایک بھی بلوچی نہیں سب پنجابی ہیں۔ صحافی ہونے کے ناطے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ”را” نے جو کوئٹہ بلوچستان میں کابل کی طرح نفرت اور فوج دشمنی کے بیج بوئے ہیں کیا وہ کافی نہیں ہیں اس کا ایک اور جھوٹ کہ خان قلات نے دہلی آ کر کہا تھا کہ وہ انڈیا سے الحاق چاہتے ہیں یہ شخص بھول گیا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد پر ابھی تک انڈیا نے عمل نہیں کیا ہے یہ شخص تاریخ کی حقیقت کو بھول کر کہتا ہے محمود غزنوی نے سومناتھ پر حملہ کیا تھا جب کہ اشوکا نے تلنگا میں خون کی ندیاں بہا دی تھیں بغیر سونے کے مورتیوں کے۔ گیتا اس کی مذہبی کتاب ہے بار بار دہراتا ہے ‘ یہ مت سوچو کہ تمہیں کام کرنے سے کیا ملے گا مزید یہ بھی اعتراض کہ دہلی میں جامع ملیہ کیوں اور وہیں ابھی تک اورنگزیب روڈ کی تختی کیوں یہ بات پرانی ہے اب وہاں ابوکلام آزاد کی تختی ہے حد تو یہ کہ یہ شخص ابوکلام آزاد جیسے پکے کانگریسی اور پاکستان کی علیحدگی کے خلاف کے لئے بھی بولتا ہے کہ چین کے مسلمانوں پر کاٹنا لگے تو انڈیا کے مسلمان کو محسوس ہو۔ اس کی نظر میں جامعہ ملیہ تیزاب ہے اور اس لئے شاید مودی نے اس کی بات پر عمل کرتے ہوئے اندر گھس کر گولیاں چلوائی تھیں۔ اس کی نفرت کی انتہا یہ ہے کہ اسے لفت ملت پر بھی اعتراض کہ ترکی میں نہیں تو انڈیا میں کیوں استعمال ہوتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائد اعظم کی تصویر بھی اسے کھٹکتی ہے۔ ایک اور جھوٹ کہ پاکستان میں لالہ جگت رائے کا نام ہٹا دیا جب کہ ہم حیدر آباد سندھ میں جگت رائے لین کے رہنے والے ہیں۔ اور یہ گنگا جمنی تہدیب کیا ہے؟ بھلا اس جاہل کو کیسے معلوم ہو اگر اس نے کتابیں نہ ہی پڑھی ہوں۔ پھر کھلم کھلا یہ ان کی آشا کا مذاق بھی اڑاتا ہے اس لئے کہ یہ آگ لگانے والا شخص ہے اور اب اس کی بکواس کے تناظر میں کالم کا پہلا پیراگراف پڑھ لیں کتنا سچ کہا گیا ہے۔