امریکہ میں خنزیرکے گوشت کاپراسسنگ پلانٹ بڑے پیمانے پرکورونا وائرس پھیلاﺅکا سبب بنا

0
454

 

واشنگٹن(پاکستان نیوز) امریکہ کی ریاست ساﺅتھ ڈکوٹا میں قائم خنزیرکے گوشت کی مصنوعات بنانے والا دنیا کے سب سے بڑا پلانٹ ملک میں بڑے پیمانے پرکورونا وائرس پھیلاﺅ کا سبب بنا‘جولیا نامی ایک لڑکی نے 25مارچ کو اپنی شناخت چھپانے کے لیے ایک جعلی فیس بک اکاﺅنٹ سے اپنی کاﺅنٹی سوفالز کے مقامی اخبار ”ارگس لیڈر“ کے فیس بک پر پیغام بھیجا کہ کیا آپ پتہ کر سکتے ہیں کہ” سمتھ فیلڈ فوڈز“ (خنزیرکا گوشت پراسس کرنے والی فیکٹری) میں کیا ہو رہا ہے؟8 منزلہ عمارت میں بنی یہ فیکٹری امریکہ کے بڑے فوڈ پراسسنگ کارخانوں میں سے ہے جہاں خنزیر کے گوشت سے مختلف اشیا بنائی جاتی ہیں عام دنوں میں یہاں روزانہ 25سے30 خنزیروں کو ٹکڑوں میں کاٹ کر ان کا قیمہ، ہاٹ ڈاگز، بیکن اور ہیم بنائے جاتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس فیکٹری میں 3700 ملازمین کام کرتے ہیں اور یہ شہر میں روزگار فراہم کرنے والا بڑا مرکز بتایا گیا ہے کہ فیکٹری کے ملازمین میں ٹیسٹ مثبت آنے کے باوجود انتظامیہ نے خاموشی سے کام جاری رکھا اور متاثرملازمین کو بھی چھٹیوں پر نہیں بجھوایا گیا ‘امریکا میں کورونا وائرس کے حوالے سے جاری ہونے والے ایس او پیزکے مطابق ایسی صورتحال میں نہ صرف کمپنی کو فوری طور پر فیکٹری سیل کردینا چاہیے تھی بلکہ اس دوران سپلائی کیا جانے والا سامان بھی تلف کرنا لازم تھا مگر کمپنی نے مجرمانہ غفلت برتی۔ تاہم کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ متاثرہ ملازم کو چھٹیوں پر بجھوادیا گیا اور کام کی جگہ اور دیگر جگہوں کواچھی طرح سے جراثیم سے پاک کر دیا گیا تھا لیکن یہ پلانٹ جسے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ’انفراسٹرکچر انڈسٹری کا اہم حصہ‘ سمجھا جاتا ہے، مکمل طور پر چلتا رہے گا‘فیکٹری کو کھلا رکھنے کے فیصلے کی وضاحت کے لیے 19 مارچ کو جاری کردہ ایک آن لائن ویڈیو بیان میں سمتھ فیلڈ کے سی ای او کینتھ سلیون کا کہنا تھا کہ کھانا ہماری زندگی کا ایک لازمی جزو ہے اور 40 ہزار افراد پر مشتمل ہماری ٹیم کے اراکین ہزاروں امریکی کسان خاندان اور ہماری سپلائی چین کے بہت سارے دوسرے شراکت دار یہ سب کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے ہماری قوم کے ردعمل کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جبکہ ”مخبر“ جولیا کا کہنا ہے کہ سمتھ فیلڈ فوڈز کے کئی لوگوں کے ہسپتال داخل ہونے کے بارے میں سنا گیا‘جولیا کی عمر 20 اور 30 سال کے درمیان ہے اور یونیورسٹی کی طالبہ ہیں کووڈ 19 کے کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہونے کے سبب وہ گھر پر ہیں تاہم ان کے والدین طویل عرصے سمتھ فیلڈ میں ملازمت کر رہے ہیں جولیا بتاتی ہیں میرے والدین انگریزی نہیں جانتے وہ اپنی وکالت نہیں کر سکتے ہیں کسی کو ان کے لیے آواز اٹھانا ہو گی کیونکہ جولیا کے آوازاٹھانے سے اس کے والدین کی ملازمیتں خطرے میں ہیں‘سو فالز میں موجود کئی دوسرے خاندانوں کی طرح جولیا کے خاندان نے بھی خود کو بیماری سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here