میڈیا کی خیر نہیں

0
435
ماجد جرال
ماجد جرال

میڈیا ہر دور میں حکمرانوں کے لیے ایک بڑی مصیبت ہی رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ میڈیا حکمرانوں کو ان کے ماضی کے بیانات اور وعدے دکھا کر اکثر اوقات شرمندہ کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا حکمرانوں کو یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ آپ نے یہ کام کرنا تھا مگر آپ کر کیا رہے ہیں۔
پاکستان میں پرویز مشرف کے مارشل لاء اور ق لیگ کے دور حکومت کو چھوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کے ادوار میں میڈیا کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ لیا جائے تو یہ ان تینوں ادوار کا سیاہ ترین دور سے گزر رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی جیسی بھی تھی مگر یہ ان کو کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انہوں نے میڈیا کا گلا دبانے کی بجائے اپنی غلطیوں کا برملا اعتراف کیا کرتے تھے۔ میڈیا کو خریدنے کیلئے جو داوپیچ استعمال کیے جا سکتے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر حربہ آزمایا مگر میڈیا کی آزادی کے گرد گھیرا تنگ نہ کرنے والی یہ واحد جماعت ہے جس کے دور میں میڈیا نے اپنی حدود و قیود کا بھی بعض دفعہ واہ خیال نہ رکھا مگر اپنی نے اس جماعت پر جس نے میڈیا کی ہر تنقید کو برداشت کیا۔
نون لیگ کے دور حکومت میں میڈیا کو نظر انداز کیے جانے کی پالیسی ماضی کی طرح کی ہی تھی۔
نظر انداز کرنے سے مراد جس کے من میں جو آیا، وہ چلایا، جس نے جو چاہا وہی خبر بنا ڈالی مگر ن لیگ حکومت کی پالیسی ہمیشہ کی طرح یہی رہی کہ اس کا توڑ انہوں نے مخصوص لوگوں کو خبریں پہنچانا، انہیں مخصوص نوعیت کی پریس بریفنگ میں بلانا اور مخالف خبریں دینے والے صحافیوں سے فاصلہ رکھنا کہ خود ہی عموما وہ صحافی حضرات اپنے اداروں کے ہاتھوں تنگ آکر کارکردگی دیکھانے کے چکر میں ن لیگی وزرا اور اہم افراد سے تعلق بنانے کے چکر میں پڑ جاتے۔
ان دونوں جماعتوں کی سیاسی پختگی یہ تھی کہ انہوں نے میڈیا کے سامنے ہر ممکن کوشش کی کہ جو بھی کارکردگی فرضی یا اصلی بنا کر پیش کی جائے اس کو کوئی میڈیا کا ادارہ جھوٹا ثابت نہ کرسکے۔
مگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان میں میڈیا کو قابو کرنے کے لیے نت نئے تجربے شروع کررکھے ہیں۔
سابقہ حکومتیں صرف اتنا زور لگاتی تھیں کہ میڈیا ان کے خلاف اپوزیشن کا آلہ نہ بنے۔
مگر موجودہ حکومت زور لگاتی ہے کہ میڈیا اپوزیشن کے خلاف حکومت کا آلہ کار بنے۔
سابقہ حکومتیں اصرار کرتی تھیں کہ ان کی مثبت چیزیں اور کام مثبت انداز میں ہی پیش کیے جائیں۔
موجودہ حکومت اصرار کرتی ہے کہ ان کے منفی کاموں کو بھی مثبت انداز میں پیش کیا جائے۔
مثلا حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ جو سڑکیں اور موٹر ویز سابقہ حکومتوں کے ادوار میں بنی وہ غلط اور جو اب بن رہی ہیں وہ درست کہی جائیں۔
سابقہ حکومتوں کے دور میں مہنگائی کی وجہ ان کی کرپشن ہوتی تھی۔
موجودہ حکومت میں ہونے والی بے انتہا مہنگائی کی وجہ بھی سابقہ حکومتوں کی کرپشن کہی جائے۔
سابقہ ادوار میں کرپٹ ممالک میں پاکستان کا نام اوپر جانے کی وجہ حکمران ہوتے تھے۔
موجودہ دور میں پاکستان مزید کرپٹ ممالک میں اوپر جانے کی وجہ بھی سابقہ حکمران ہیں۔
سابقہ حکومتوں کے دور میں بننے والی میٹرو بس اور اورنج ٹرین قومی خزانے پر ڈاکہ تھا۔
مگر بے پناہ لاگت سے تیار ہونے والی پشاور میٹرو بلکہ اسلام آباد لاہور اور ملتان میٹرو کے مجموعی لاگت کے آس پاس بننے والی صرف ایک پشاور میٹرو پاکستان کا شاہکار منصوبہ ہے۔
غرض کہ موجودہ حکومت صرف یہ چاہتی ہے کہ جب وہ کوا سفید کہے تو سارا میڈیا کوا سفید دکھائے۔
اپنی ناکامیوں پر جواب دینے کے لیے حکومت کا آپ کو ایک وزیر مشیر نہیں ملے گا۔ مگر سابقہ حکومتوں پر کیچڑ اچھالنے کیلئے یہ سارا دن ٹی وی چینلوں پر بیٹھے رہیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا ہے کہ صدر مملکت کی تقریر کے موقع پر پریس گیلری کو تالا لگا کر میڈیا کو کوریج سے روک دیا گیا۔
یہ اتنے خوش قسمت ہیں کہ ان کو میڈیا لانے والوں میں شمار ہوتا ہے، مگر میڈیا کو سب سے زیادہ مار بھی موجودہ حکومت کے دور میں ہی پڑ رہی ہے۔ اگر آپ سارا میڈیا حکومت کی واہ واہ کرنے لگے، کوا سفید دکھانے لگے، اپوزیشن کی کردار کشی کرنے لگے، تو حکومت کا مجوزہ میڈیا کے خلاف تیار کردہ کہاں غائب ہو جائے کسی کو پتہ بھی نہ چلے ورنہ میڈیا یاد رکھے کہ آپ میڈیا کی خیر نہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here