پانچویں قسط
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تقدیر کے سلسلے میں بحث کرنا رسول گرامی وقارۖ کے غضب وجلال کا سبب ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جب تقدیر کے مسئلہ میں بحث کرنا غضب مصطفیٰ جان رحمتۖ کا باعث ہے تو پھر تقدیر کو کو سناکس قدر تباہی وبربادی کا سبب ہوگا۔ لہٰذا خداوند قدوس خواہ لڑکی عطا کرے یا لڑکا دونوں بلاشبہ اس کی عظیم نعمتیں ہیں۔ ہم بندوں کو چاہیے کہ ہمیشہ راضی برضائے مولا رہیں۔ اسی میں ہماری دنیوی اور دینی فلاح مضمر ہے۔
جیسا کہ اس سے پہلے میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی حدیث پیش کرنے کی سعادت حاصل کی کہ حضور اکرم نور مجسم روحی فداہ جناب محمد رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرے پھر ان کی تربیت کرے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرے یہاں تک کہ خدا ان کو مستغنی کردے یعنی وہ سن بلوغ کو پہنچ جائیں اور ان کا نکاح ہوجائے تو پرورش کرنے والے پر اللہ تبارک وتعالیٰ جنت واجب فرما دے گا۔ اس حدیث پاک سے لڑکی کے مقام ومرتبہ کی بلندی کے پہلو بہ پہلو عربوں اور دیگر قوموں کے یہاں جو عورتوں کی نحوست کا عقیدہ رائج تھا اس کا صریح بطلان ہوجاتا ہے۔ تبھی تو خداوند قدوس نے اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرمایا” ان الدین عند اللہ الاسلام” یعنی بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔
اولاد کی پیدائش پر عقیقہ کرنے سے جہاں سنت کی ادائیگی ہوتی ہے وہیں اسلام کے ایک عظیم شعار کا برملا اظہار بھی ہوتا ہے۔ مزید برآں خالصاً لوجہ اللہ عقیقہ کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کے تقرب کے حصول کا باعث بھی ہے۔عقیقہ سے ایک خاص فائدہ یہ بھی مرتب ہوتا ہے کہ بچہ آفات ومصائب اور مہلک امراض ارضیہ وسماویہ سے محفوظ رہتا ہے۔
ایک اور اہم بات بتاتا چلوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی میں عقیقہ کی شرکت نہیں ہوسکتی۔ یہ بات بالکلیہ غلط ہے۔ کوئی اگر چاہے تو قربانی کے ساتھ عقیقہ بھی کرسکتا ہے۔ اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ یہ بات بھی بعض جہلا کہہ ڈالتے ہیں کہ عقیقہ کا گوشت فقیروں کو ہی اور وہ بھی کچّا تقسیم کرنا چاہیے اور یہ بھی کہتے پھرتے ہیں کہ عقیقہ کا گوشت ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ کھا نہیں سکتے۔
٭٭٭