نیویارک (پاکستان نیوز) امریکا سے بہترین تعلقات کی خواہشمند بھارتی قیادت کو بڑا دھچکا لگا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ، وائٹ ہاو¿س اور امریکی صدر کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ‘ان فالو’ کردیا ہے۔چند دن قبل ہی وائٹ ہاو¿س نے بھارتی وزیر اعظم، امریکا میں بھارتی سفارتخانے، صدر رام کووند اور دیگر کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر فالو کرنا شروع کردیا تھا۔اس پیشرفت کے بعد وائٹ ہاو¿س کی جانب سے فالو کیے جا رہے اکاو¿نٹس کی تعداد 19 ہو گئی تھی جس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ معاشی سطح پر بڑھنے والی قربتیں اب سفارتی سطح پر بھی بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ مودی دنیا کے واحد رہنما ہیں جنہیں وائٹ ہاو¿س اور امریکی صدر کے آفیشل ٹوئٹر اکاو¿نٹ سے فالو کیا جا رہا ہے تاہم اب نامعلوم وجوہات کی بنا پر وائٹ ہاو¿س، ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی صدر کے آفیشل ٹوئٹر اکاو¿نٹ نے بھارتی وزیر اعظم سمیت ان تمام اکاو¿نٹس کو دوبارہ ان فالو کردیا ہے جس سے یہ تعداد واپس 13ہو گئی ہے۔کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی کی 2020 ءکی رپورٹ جاری کردی گئی جس میں بھارت کو پہلی بار اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت 2019 ءمیں مذہبی آزادی کے حوالے سے بدترین ملک رہا، یو ایس سی آئی آر ایف نے سال 2020 ءکی رپورٹ میں مودی سرکار کی طرف سے شہریت کے ترمیمی قانون کو مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کو 2004 ءکے بعد پہلی بار مذہبی آزادی کے حوالے سے تشویشناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ مودی سرکار کے شہریت ترمیمی ایکٹ نے مسلمانوں کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ بھارت کے چار سالہ نیشنل رجسٹریشن پروگرام کی تکمیل کے بعد لاکھوں بھارتی مسلمانوں کو قیدوبند، جلاوطنی اور ریاست کی شناخت کھونے جیسے خطرات کا سامنا ہو گا۔ رپورٹ میں امریکی انتظامیہ سے مذہبی آزادی کو پامال کرنے والے ملکوں سے کڑا حساب لینے کی سفارش کی گئی ہے،امریکی کمیشن نے بابری مسجد سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر نے پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ رپورٹ میں پاکستان میں متعدد مثبت پیشرفتوں کا اعتراف کیا گیا ہے،امریکی رپورٹ نے لکھا کہ پاکستان کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت مذہبی آزادی کو درپیش مسائل کے حل پر بات کرنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے تمام ادویہ کی ایکسپورٹ پر پابندی عائد کیے جانے کے ایک دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر بھارت نے انہیں ہائیڈروکسی کلوروکوئن نامی دوا ایکسپورٹ نہ کی تو انہیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑسکتے ہیں۔ہائیڈروکسی کلورو دنیا بھر میں بھارت سب سے زیادہ مقدار میں بناتا ہے اور کوئن کو کورونا وائرس کے خلاف علاج کے لیے ایک موثر دوا تصور کیا جا رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد بھارت نے انہیں دوا دینے کی حامی بھر لی تھی اور امریکی صدر اور وائٹ ہاو¿س کو ان کی یہ ادا اس حد تک پسند آئی تھی کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم سمیت چند اہم شخصیات کو ٹوئٹر پر فالو کرنا شروع کردیا تھا تاہم ٹوئٹر پر ابھی یہ قریبی تعلقات پروان بھی نہ چڑھے کہ ٹرمپ، وائٹ ہاو¿س اور امریکی صدر کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل نے بھارتی وزیر اعظم اور اہم شخصیات کو دوبارہ ‘ان فالو’ کردیا۔ وائٹ ہاو¿س کی جانب سے اس بات کی کوئی واضح وجہ بیان تو نہیں کی گئی لیکن عین ممکن ہے کہ یہ اقدام امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی مرتب کردہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اٹھایا گیا ہو۔حال ہی میں جاری امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کی ممکنہ طور پر سب سے گری ہوئی اور سب سے خطرناک حد تک بگڑی ہوئی صورتحال دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہلوانے والے ملک بھارت میں ہے۔کمیشن کے چیئرمین ٹیڈ پرکنز کا کہنا تھا کہ ہم غیر ریاستی عناصر کی جانب سے اقلیتوں کےخلاف تشدد کے لیے چھوٹ دیکھ رہے ہیں جبکہ نائب چیئرمین نادائن مائنزا کا کہنا تھا کہ بھارت نے ’مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کو برداشت کیا۔مذکورہ رپورٹ کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس میں بھارت کو ’خاص تشویش والا ملک‘ قرار دینے کی سفارش کی گئی۔خیال رہے کہ ’خاص تشویش والا ملک‘ ایک ایسا درجہ ہے جو امریکی بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ (آئی آر ایف اے) 1998 کے تحت امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کی جانب سے اس ملک کو دیا جاتا ہے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا مرتکب ہو جن ممالک کو یہ درجہ دیا جاتا ہے اس کےخلاف مزید ایکشن لیے جاتے ہیں جس میں امریکا کی جانب سے معاشی پابندیاں شامل ہیں جب تک کہ حکومت اسے ’قومی مفاد‘ میں چھوٹ نہ دے جیسا کہ پاکستان کو دی گئی۔ رپورٹ میں بھارتی شہریت ترمیمی بل، گائے ذبح اور مذہب تبدیل کرنے پر پابندی کے قوانین، سپریم کورٹ کا بابری مسجد کا فیصلہ اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدامات پر تنقید کی گئی۔