ایک ہی شہر میں دو عیدیں منانے کا مسئلہ ہمارے معاشرے کے لیے نہایت ناپسندیدہ اور تکلیف دہ صورت حال ہے۔ یہ مسئلہ علما حضرات کی ذاتی رویوں اور باہمی اختلافات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ایک ہی شہر میں دو عیدیں منانے کی بڑی وجہ علما کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ہر فرقہ اور مکتب فکر کے علما اپنے اپنے نظریات اور اصولوں کے تحت فیصلے کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا قیام اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ پورے ملک میں ایک ہی دن عید منائی جا سکے، مگر اکثر علما اس کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کی وجہ سے عوام میں کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات علما حضرات اپنی ذاتی انا اور اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے فیصلوں کو رد کرتے ہیں۔ یہ رویہ عوام میں تقسیم کا باعث بنتا ہے اور معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ چاند دیکھنے کے لیے جدید سائنسی طریقوں کو نظر انداز کرنا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ علما حضرات اگر شرعی اصولوں کے ساتھ ساتھ سائنسی طریقوں کو بھی استعمال کریں تو اختلافات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ایک ہی شہر میں دو عیدیں منانے سے معاشرتی انتشار اور اختلافات بڑھتے ہیں۔ لوگ آپس میں الجھتے ہیں اور خاندانوں میں بھی تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ عوام کا علما پر اعتماد کم ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ مذہبی رہنما آپس میں متفق نہیں ہیں۔ یہ مذہب کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ بچے جب دیکھتے ہیں کہ ان کے بڑے مذہبی معاملات میں بھی متفق نہیں ہیں تو ان کی ذہنی تربیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کی فورا اشد ضرورت ہے۔ علما حضرات کو آپس میں مل بیٹھ کر اتحاد اور ہم آہنگی کی کوشش کرنی چاہیے۔ تمام فرقوں اور مکاتب فکر کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر آ کر متفقہ فیصلے کرنے چاہئیں۔ شہر کی تمام مساجد اور مدارس کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔ اس کے لیے علما حضرات کو عوام میں شعور بیدار کرنا چاہیے کہ مرکزی کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کرنا معاشرتی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے۔ علما حضرات کو عوام میں چاند دیکھنے اور عید منانے کے صحیح طریقوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔ عوام کو بتایا جائے کہ اختلافات کو کم کرنے کے لیے کیسے عمل کیا جا سکتا ہے۔
چاند دیکھنے کے شرعی اصولوں کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی طریقوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے درست اور متفقہ فیصلے کیے جا سکیں گے۔ علما حضرات کو اپنی ذاتی ضد اور اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر ملت کے مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ مفاہمت اور مصالحت کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ علما حضرات کو جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو واضح اور بروقت معلومات فراہم کرنی چاہیے تاکہ غلط فہمیوں سے بچا جا سکے۔ ایک ہی شہر میں دو عیدیں منانے کا مسئلہ علما حضرات کے کچھ خاص رویوں کا نتیجہ ہے۔ اگر علما حضرات اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں، اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیں، اور عوام میں شعور بیدار کریں تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف معاشرتی ہم آہنگی بڑھے گی بلکہ مذہب کی ساکھ بھی محفوظ رہے گی۔
٭٭٭