چند ماہ قبل کی بات ہے کہ میں نے فیصل آباد ممتاز شاعرہ اور دانشور محترمہ ڈاکٹر عائشہ ظفر کے شعری مجموعہ بھیگتی آنکھ کا دُکھ کی تقریبِ رونمائی میں بطورِ صدرِ شرکت کی جس میں شہر بھر سے نامور شاعروں ، صحافیوں، دانشوروں اور عمائدینِ شہر نے شرکت کی ۔ معروف ادبی دانشور صدر شعبہ اردو الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر شیر علی اور جدید نظم کا معتبر نام ڈاکٹر وحید احمد کی سربراہی میں ہم اسلام آباد سے اکٹھے روانہ ہوئے۔ تقریبِ رونمائی میں ادبی دانشوروں نے مقالے پڑھے اور تقاریر کیں۔ تقریب کے بعد مشاعرہ بھی ہوا جس میں مقامی شعرا کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ڈاکٹر شاہد ندیم کو ایک سائنسدان شاعر کہہ کر دعوتِ شعر خوانی اور کتاب پر گفتگو کے لیے کے لیے دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر شاہد ندیم نے اپنی ادبی اور فکری گفتگو سے سامعین کو مسحور کر دیا۔ آپ نے ایک شاعر، ادیب اور دانشور کے سماجی اور انقلابی فرائض پر نہایت بصیرت افروز تقریر کی جس نے مجھے بھی خاصا متاثر کیا۔ آپ نے تقریب میں مجھے اپنا شعری مجموعہ صرف تم مرحمت فرمایا جو آپ کی عمدہ شاعری پر مشتمل ہے۔شاہد ندیم آپ کا نام ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ دو الفاظ مرزا غالب کے اشعار کا ادبی فیض ہے، شاہد کے بارے میں غالب کہتے ہیں!
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
رہا معاملہ ندیم کا تو مرزاغالب کا لاجواب شعر سنیے اور سر دھنیے
غالب ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں بندگیء بوتراب میں
الفاظ کی تاثیر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر شاہد ندیم نے مشاہد حق بھی کیا ہے اور مشغولِ حق بھی ہیں گویا
ہر چند ہو مشاہد حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغرِ کہے بغیر
ڈاکٹر شاہد نعیم نے ساغر ِ سفال میں جامِ جم کا جلوہ دکھا دیا ہے۔ کہتے ہیں!
دل میں رہتے ہو دھڑکنوں کی طرح
ذہن کے ہر خیال میں تم ہو
لالہ و گل ہو یا کہ عنبر ہو
حسنِ کامل مثال تم ہو
آپ کا دوسرا شعری مجموعہ بعنوان ”مجھے تم اچھے لگتے ہو” زیرِ اشاعت ہے۔ آپ نے چند غزلیات اور منظومات بھیجی ہیں اور کتاب پر رائے لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ میں نے نہایت ذوق و شوق سے ان کے کلام کا مطالعہ کیا۔ ہر شعر پر دل سے آواز آئی !
ز فرق تا قدمش ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست
اس کتاب کا عنوان آپ نے اپنی ایک نظم وجہ سے لیا ہے۔ آپ نے نظمیں مختلف موضوعات پر لکھی ہیں جن میں رومانوی ،سماجی اور انقلابی رنگ نمایاں ہے۔ ایک نظم میری تحریر ایسی ہے کا اختتام یوں کرتے ہیں!
مری تحریر کی ترکیب ہے بس خوش بیاں لکھنا
حیاتِ جاوداں لکھنا
محبت کی زباں لکھنا
حیاتِ جاوداں میں زندگی کے مسائل اور نشیب و فراز اور تگ و تاز کا ذکر ہوتا ہے گویا یہ غمِ دوراں اور غمِ انساں کا تذکرہ ہے اور محبت کی زباں لکھنا سے مراد رومانوی شاعری بھی ہے اور عالمی بھی۔ محبت جتنی زیادہ ہو اتنی ہی کم ہے اور نفرت جتنی کم ہو اتنی ہی زیادہ ہے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا کو درسِ محبت شاعروں نے دیا ہے۔ ہر شاعر بنیادی طور پر شاعرِ محبت اور پیامبرِ انسانیت ہوتا ہے۔ شاعر قوم کا دل اور نباض ہوتا ہے۔بقول علامہ اقبال
شاعرے در سین ملت چو دل ملتے بے شاعرے انبارِ گِل
آپ نے شاعر کے حساس ہونے کا ثبوت اپنی پرکیف و پرسرور وجدانی شاعری میں دیا ہے۔ آپ بھی فیض احمد فیض کی طرح اپنے محبوبِ نظرپر نازاں ہیں۔ محبوب کے بارے میں بے ساختہ کہتے ہیں
تعارف میں تمہارے اک شمارہ تم پہ لکھوں گا
پھر اس کے بعد جو لکھا وہ سارا تم پہ لکھوں گا
حسابِ دوستاں میں منفعت کا سوچنا کیسا؟
تمہیں کیوں کر لگا سارا خسارا تم پہ لکھوں گا
شیخ سعدی نے حسابِ دوستاں در دل است کہا تھا۔ ڈاکٹر شاہد ندیم بھی شیخ سعدی کے ہم زباں ہیں اور حسابِ دوستاں میں سود و زیاں سے بے نیاز ہیں۔آپ کی ایک طویل نظم کبھی شاعر بنا تو اردو ادب میں ایک نایاب اور بینظیر نظم ہے۔یہ نظم زندگی کے کئی معاملات و مسائل کی نشان دہی کرتی ہے۔اس نظم میں آپ کے ادبی اور فکری جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں۔ آپ کی ایک اور نظم میرا گائوں بھی لاجواب نظم ہے۔کہتے ہیں
کبھی فرصت ملی تو پھر انہی راہوں میں گم ہوکر
محبت میں انہی پھیلی ہوئی بانہوں میں گم ہو کر
میں سب کچھ چھوڑ کر واپس اسی گائوں میں جائوں گا
کہ اس مہکار میں ڈوبی ہوئی چھائوں میں جائوں گا
ہر شخص کو اپنی جنم بھومی سے پیار ہوتا ہے ۔ڈاکٹر شاہد ندیم شہروں کی چکاچوند سے اُکتا گئے ہیں اور فطرت کی خوبصورتی اور دل کے سکون کو اپنے آبائی گائوں میں تلاش کرنے کے متمنی ہیں۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ ان کا گائوں آج بھی آباد ہے وگرنہ انہیں آئرش شاعر Oliver Goldsmith کی طرح اپنے گائوں کی بربادی اور ویرانی پہ نوحہ کناں ہونا پڑتا۔Deserted Village اس کی مشہور طویل نظم ہے جس کی یہ سطور کسی نوحے سے کم نہیں ۔وہ کہتا ہے
Amidst thy desert walks the lapwing flies
And tire their echoes with unvaried cries
Sunk are thy bowers in shapeless ruins all
And the long grass O ertops the mouldering wall
صد شکر کہ ڈاکٹر شاہد ندیم کا قری جاں شاد و آباد ہے جبکہ Oliver Goldsmith کاقری جاں ویران و برباد ہو چکا ہے۔افسوس صد افسوس اِن ویران بستیوں کے بارے میں مرزا غالب نے کتنا دلدوز شعر کہا تھا
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا اِن بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
ڈاکٹر شاہد ندیم کی غزلیات کا اپنا ہی رنگ و آہنگ ہے، آپ کی غزلیں سلیس و سادہ اور رواں ہیں۔ رومانوی اور سماجی ہیں۔ کہتے ہیں
تجھے پانے کی حسرت تھی، پر لب کھولنے سے ڈرتا ہوں
تجھے میں اب کسی بھی اور کا ہونے سے ڈرتا ہوں
تری تصویر آنکھوں میں کبھی دھندلی نہ ہو پائے
میں منظر صاف رکھتا ہوں اور اب رونے سے ڈرتا ہوں
رسمِ عشق پر اِن کا یہ شعر ایک زندہ و پایندہ شعر ہے۔کہتے ہیں
عشق سردار ہے، یہ دار سے کب ڈرتا ہے
نوک خنجر پہ مچلتا ہے ، نہاں ہوتاہے
ایک سائنسداں کا ایسا عمدہ کلام اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ شاعر پیدائشی شاعر ہوتا ہے اور ڈاکٹر شاہد ندیم کو دستِ قدرت نے کارِ جہاں میں شاعر بنا کر بھیجا ہے۔شیخ سعدی نے سچ کہا تھا
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
٭٭٭