توشہ خانہ!!!

0
133
عامر بیگ

جس حکومتی یا سرکاری فرد کو بھی کسی غیر ملکی دورے کے دوران یا ملک میں آئے غیر ملکی سرکاری مہمان سے کوئی تحفہ ملتا ہے وہ ایک پاکستانی قانون کے مطابق اسے توشہ خانہ میں جمع کروا دیتا ہے پھر کیبنیٹ ڈویژن میں اس کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے قیمت طے کی جاتی ہے اور جس کو تحفہ ملا ہو پہلا حق اسی کا ہوتا ہے کہ وہ اسے تحفہ کی لگائی گئی قیمت کی پچاس فیصد جو عمران خان کی حکومت آنے سے پہلے دس فیصد تھی کے حساب سے رقم ادا کر کے اپنی ملکیت میں لے لے اور جہاں چاہے جیسے چاہے استعمال کرے، ملکیت کے شرعی اور ملکی قانون میں بھی یہی درج ہے اگر شخص توشہ خانہ میں جمع کرایا گیا تحفہ لینا پسند نہیں کرتا تو اسے آکشن کر دیا جاتا ہے لہٰذا جو بھی خریدنا چاہے وہ اسکی لگائی گئی قیمت ادا کر کے لے سکتا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں مگر پرابلم اس وقت آتی ہے جب اسے لیکر ڈکلیئر نہ کیا جائے یا مل ملا کر اونے پونے خرید لیا جائے جو کہ ہوتا رہا ہے اس بارے تفتیش کی ضرورت ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ تفتیش کرے کون ،سبھی نے تو دستانے پہنے ہوئے ہیں، دیگ میں سے ایک دانہ پیش خدمت ہے کہ مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ نے جنوری 2016 میں توشہ خانہ سے 5 کروڑ 43 لاکھ مالیت کے زیوارت لیے جبکہ جون 2016 کے گوشواروں میں انکے اثاثوں کی کل مالیت محض دوکروڑ تھی ،اسی طرح توشہ خانہ کا ریکارڈ اوپن کرنے سے اور بہت سے لوگوں کے پول بھی کھل گئے ہیں اور یہ کام مجبوری میں کیا گیا اس میں حکومتی کارکردگی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ حکومت نے تو پردہ ڈالا ہے ،صرف دوہزار سے اوپر کا ٹیمپرڈ ریکارڈ جاری کیا ہے وہ بھی لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخل شدہ پیٹیشن کی وجہ سے کورٹ آرڈر کے تحت انیس سو سینتالیس سے لیکر آج تک کا ریکارڈ پیش کرنے بارے کہا گیا تھا اصل میں تو مزہ دوبالا اس وقت ہوگا جب پچاسی سے دوہزار تک کا ریکارڈ منظر عام پر آئے گا جس میں اصل لوٹ مار مچی تھی ایک فیکٹری سے چھتیس فیکٹریاں اور بیمبینو سینما سے دوبئی کے تہہ خانے فارن کرنسی سے بھریگئے اور پھر اگر بات چل نکلی ہے تو جج جنرل اور جرنلسٹ کو ملنے والے تحائف پلاٹوں اور زمینوں کی تفاصیل بھی صفحہ قرطاس پر آنی چاہئے کہ عوام دیکھے اور حکومتی گماشتوں سے پوچھے کہ ان کے خون پسینے سے کمائی گئی جمع پونجی سے ٹیکس کی کٹوتی کو کس بے دردی سے حکومتی اشرافیہ لوٹتی کھسوٹتی رہی ہے۔ توشہ خانہ تو ابتدا ہے، عوام میں شعور اب اس نہج پر پہنچ چکاہے کہ حکومت زیادہ دیر تک پردہ پوشی اختیار نہیں کر سکے گی، معیشت کی درگوں حالت میں یہ سب طشت ازبام کرنا پڑے گا تاکہ آئندہ آنے والی حکومتیں عبرت پکڑیں پاکستان ایک غریب ملک ہرگز نہیں ہے، وسائل سے مالا مال ہے ،صرف تھر کول سے ہی چار سو بلین ڈالرز حاصل کئے جا سکتے ہیں جو ہمارے درد دور کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here