اک تماشہ ہے سمجھنے کا، نہ سمجھانے کا!!!

0
5
جاوید رانا

اپنے گزشتہ کالم جمہوریتوں کا فرق میں ہم نے امریکہ و پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ پاکستان میں جمہور کی مرضی کو خاک میں ملانے کے سبب جمہوریت کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ہے جبکہ امریکہ میں جمہور کی رائے کے سبب جمہوریت کا تسلسل جاری رہتا ہے ہمارے اس مؤقف کا دونوں ممالک کی سیاسی تاریخ کے سفر پر نظر ڈالنے سے اثبات واضح ہوتا ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدۂ صدارت سنبھالتے ہی امریکی صورتحال نے جو رخ اختیار کیا ہے اس کے تناظر میں تو یہ احساس اُجاگر ہوتا ہے کہ طاقت اور اختیار کے نشے میں چُور طاقت کے رویوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا خواہ وہ پاکستان ہو یا امریکہ، البتہ جمہوری روایات و مثبت آزادانہ رائے کے ذریعے عوام مخالف اقدامات پر صحت مندانہ رویوں اور عمل سے بند باندھا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں تو آئین جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کی دھجیاں عرصے سے اُڑائی جا رہی ہیں، ٹرمپ کے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد سے کچھ اسی قسم کے تماشے سامنے آرہے ہیں جن کی بنیادی وجہ صدر ٹرمپ کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈرز ہیں۔ ٹرمپ کے ان سینکڑوں آرڈرز کی تفصیل سے قارئین میڈیا کے توسط سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے مضر اثرات نہ صرف ملکی سیاسی و معاشی سطح پر ہو رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر نامواقف رد عمل کے عکاس نظر آتے ہیں۔ پیدائش کے حق شہریت کی تنسیخ کے ایگزیکٹو آرڈر پر تو سپریم کورٹ کے معطلی کا فیصلہ سامنے آیا ہے اور اس اقدام کو آئین کیخلاف قرار دیا گیا ہے، 22 ریاستیں ٹرمپ کیخلاف مقدمے کا عندیہ دے رہی ہیں جبکہ یورپی ممالک اور کینیڈا سمیت متعدد بیرونی ممالک ٹرمپ فیکٹر پر قطعی معترض ہیں امیگرنٹس کی بیدخلی پر الگ کہرام ہے اور شکاگو لاس اینجلس سمیت متعدد شہروں و ریاستوں میں آئس و فیڈرل ایجنسیز سے مقامی پولیس و دیگر ریاستی ایجنسیز کے درمیان نزاعی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غرض عدم اطمینان و خوف کا ایسا ماحول ہے جو ہم نے امریکہ میں اپنے 45 سالہ قیام میں نہیں دیکھا۔ امریکہ کے موجودہ حالات کے حوالے سے ہونیوالا تماشہ تو شاید مضبوط جمہوری نظام کے سبب قابو میں آجائے لیکن وطن عزیز میں برپا سیاسی بحران میں کوئی کمی آنے کے برعکس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو فریقین عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تنازعہ اور غیر جمہوری و غیر آئینی تماشہ وسیع ہو کر اب عدلیہ، مقننہ، میڈیا و دیگر فریقین تک وسیع نہ ہو جائے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت آئینی و ریگولر بینچز کے جھگڑے میں ذاتی مخالفت تک پہنچ چکی ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ججز کمیٹی اور توہین عدالت کے معاملے پر چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کے منقسم گروپس کے درمیان نزاعی صورتحال ایسا تماشہ بن چکا ہے جو سپریم کورٹ کی اہمیت و فضیلت پر ایک بدنما داغ ہی بن سکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا کھیل ایک معمہ بنا ہوا ہے جس کا بادی النظر میں کوئی نتیجہ یا امکان نظر نہیں آتا، غالباً اس لئے کہ اصل حکمران ایسا نہیں چاہتے اور اس وقت تک ٹالنا چاہتے ہیں جب تک وہ عمران خان کو اپنے ایجنڈے کے مطابق انجام تک نہ پہنچا دیں۔ اسی چکر میں 190 ملین پائونڈز کیس کے حوالے سے ملک ریاض کو گھیرنے کا چکر چلایا گیا ہے اور نیب کے توسط سے اس کیخلاف اس کے پروجیکٹس (دبئی و کراچی) کے بارے نوٹیفیکیشن جاری کر کے سرمایہ کاری کرنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے مگر وہ عمران، بشریٰ بی بی کیخلاف جانے کو تیار نہیں۔
بات ان حالات و واقعات تک ہی محدود نہیں ہے امریکہ میں اگر ٹرمپ اپنے انتخابی نعروں اور دعوئوں کی تکمیل دکھانے کیلئے ایگزیکٹو آرڈرز کے اجراء اور ملک و بیرونی دنیا سے پنگا لینے کا تماشہ کر رہا ہے تو اس کا سد باب جمہوری طور پر ہو سکتا ہے، پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ ہی نکالنے کا تماشہ نہیں آئین، عدالت، انصاف اور عوامی نمائندگی کو بھی کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ مقتدرین کی منشاء کے بغیر آئینی اداروں کی توقیر و عزت بھی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری کو چیئرمین سینیٹ کے حکم پر اجلاس میں شرکت سے معروضی پر چیئرمین سینیٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ یقیناً اچھی مثال نہیں ہے اور یقیناً پارلیمان کی توہین ہے۔ ان حالات میں خواہ امریکہ ہو یا پاکستان ہم یہی کہہ سکتے ہیں!
اک تماشہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here