فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
95

محترم قارئین! اچھا اخلاق اور کردار انسان کی زندگی میں کامیابیوں کا انبار لگا دیتا ہے۔ اور ایمان کے ساتھ کردار انسان کو آخرت کی ہر منزل پر سرخروئی دیتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرمۖ نے ایمان کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق پر بہت زور دیا ہے۔ برداشت کا حکم دیا معاف کرنے کی طرف رغبت دلائی اور صبروتحمل کا جذبہ عطا فرمایا، آپ ۖ نے صرف بیانات کا انبار ہی نہیں لگایا بلکہ کرکے بھی دکھایا۔ بخاری شریف میں حدیث مبارکہ موجود ہے حضرت انیس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضورۖ کی دس سال خدمت کی۔ جلوت وخلوت میں ساتھ رہا ،کھانا پکا کر پیش کرتا رہا۔ آپ ۖ نے مجھے کبھی نہیں فرمایا کہ یہ کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہیں کیا اور کھانے میں کبھی عیب نہیں نکالا تھا۔ اچھا لگا تو کھا لیا نہیں تو چھوڑ دیا۔ یہ بات نبی کریم ۖ کی طرف سے کتنی بڑی تعلیم ہے، عمل سے علم پھیلایا۔ آج ہم کھا بھی جاتے ہیں اور عیب لگانے کو اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔ کبھی نمک پر اعتراض اور کبھی مصالحے پر اعتراض اور کبھی تری کے زیادہ ہونے کا رونا اور کبھی گھی کے کم ہونے کا جھگڑا لیکن رونے کے باوجود کھانا چھوڑتے نہیں۔ کیسا خوبصورت اور پیارا طریقہ ہے نبی پاکۖ کا؟ جس میں برکت ہی برکت، صلح ہی صلح اور محبت ہی محبت ہے گھروں میں اکثر لڑایاں نمک اور مرچ کے کم اور زیادہ ہونے سے جنم لیتی ہیں۔ جن کے نتائج انتہائی خطرناک اور عبرتناک ہوتے ہیں۔ نبی پاک ۖ کے ہر فرمان میں انسان کی پوری زندگی سموئی ہوئی ہے۔”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ کے نبیۖ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے آپس میں محبت کرنے والے دو دوست ملاقات کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ جبکہ وہ مصافحہ کرتے ہوئے نبی پاک ۖ پر درود شریف بھی پڑھیں۔”یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام بھی مخلوق خدا سے محبت کا پیغام اپنے عمل سے دیتے تھے لوگ گردیدہ ہو کر ان کے مرید ہوجاتے اور ان کی محبت میں فنا ہوجاتے۔ حضور محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ نے ہمیشہ اپنے عمل سے اور علم سے مخلوق کی خیر خواہی کا درس دیا۔ اسی طرح حضور شمس المشائخ نائب محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ ہمیشہ مخلوق خدا کی خیر خواہی کرتے رہے۔ آج موجودہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدث اعظم پاکستان قائد ملت اسلامیہ صاحبزادہ پیر قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی وامت برکاتھم العالیہ بھی اسی فیضان کو جاری کئے ہوئے ہیں۔ اور نبی پاکۖ کی محبت کو لازم قرار دیا درود پاک کی کثرت کا فرمایا۔ نمازوں کی پابندی کا یہ سب کچھ اپنی جگہ ہے لیکن محبت مصطفیٰۖ میں آپ پر درودو سلام پڑھنے کی فضلیت کو اجاگر کیا۔ باقی یہ ضروری ہے کہ ہم جب بھی نبیۖ پاک ۖ پر درود پاک پڑھیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ اس سے مقصود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی اور رسول اعظم ۖ کی رضا ضروری ہے۔ نہ کہ کوئی اور غرض اور بالفرض اگر ہماری کوئی اور مشکل ہے بھی تو درود پاک اس نیت سے نہ پڑھا جائے کہ میری یہ غرض پوری ہو یا مجھے یہ فائدہ حاصل ہو بلکہ آداب کو محلوظ خاطر رکھتے ہوئے نبی پاک صاحب لولاکۖ پر درود شریف پڑھنا چاہیئے۔ اور اس کے وسیلے سے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنے مقاصد و مطالب کے حصول کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ انشاء اللہ العزیز اس کی برکت سے قبولیت کا یقین ہے۔ اس طرح ثواب بھی ملے گا اور کام بھی پورا ہوجائے گا نہیں تو کام تو مکمل ہوجائے گا ثواب سے محرومی ہوگی کیونکہ ثواب رضائے الٰہی و رسول عزوحل وۖ چاہنے میں ہے۔
جیسا کہ شیخ ابواسحاق شاطبی رضی اللہ عنہ شرح الفیہ میں فرماتے ہیں کہ سرکارۖ کی بارگاہ اقدس میں پیش کیا جانے والا درود پاک یقیناً مقبول ہے۔ اور اس کے ساتھ وسیلہ دے کر جب کوئی دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ بھی قبول کی جائے گی۔ ویسے بھی حدیث مبارکہ میں ہے۔ کہ جب کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ پڑھنے والے پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ دس گناہ معاف دیتا ہے اور دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں شامل فرما دیتا ہے۔ تو اتنا مقبول کام کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اتنا راضی ہو رہا ہے جس پر رحمتیں نازل فرما رہا ہے، گناہ، معاف فرما رہا ہے اور درجے بلند فرما رہا ہے نیکیاں لکھنے کی صورت میں تو جب اس کا وسیلہ پیش کیا جائے گا۔ تو حاجات کی تکمیل کا انبار تو یقیناً لگے گا۔ یہ اخلاق عالیہ اپنانے کی سب سے بڑی صورت ہے کہ ہم اپنے محسن اعظمۖ کے احسان کو سمجھیں پھر لطف میں آکر والہانہ درود وسلام اعتراض وخیال فاسدہ سے مبرا ہو کر پڑھیں پھر دیکھیں کہ رحمتیں کس قدر نازل ہوتی ہیں اور مرادیں کس قدر پوری ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here