ہمارے ملک میں جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، عید کے چاند کی تکرار رہی ہے۔ کچھ لوگ سعودی عربیہ کو فالو کرتے رہے ہیں اور کچھ لوگ چاند دیکھ کر نماز کا ارادہ کرتے رہے ہیں۔ سعودی اپنے کلینڈر سے چلتے ہیں لیکن تبلیغ والے چاند دیکھے بنا نہیں کرتے۔ اور ہم اسے سادہ لوگ جس جگہ رہتے ہیں وہاں کی سجدوں کو فالو کرتے ہیں۔ اور اس دفعہ بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ ویلی اسٹریم جہاں ہم رہتے ہیں۔ دو بڑی مساجد ہیں، حمزہ اور محمدی، حمزہ نے عید کا اعلان اتوار کے دن کے لئے کیا اور محمدی کی انتظامیہ نے جمعہ کو بتایا کو چاند کے تحت نماز پیر کو ہوگی لوگ مخسمے میں رہے لیکن یہ کوئی ایسی بات نہ تھی۔ ایسا ہم پچھلے51سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اور اس دفعہ کچھ مختلف نہ تھا۔ محمدی مسجد اپنی جگہ درست اور حمزہ سعودی عربیہ کے تحت اتوار کو عید کی چار نمازیں کر گئے۔ اتوار کا دن تھا اور ہجوم تھا ایسا کہ جب ٹرین اپنے آخری اسٹیشن پر آتی ہے تو ہجوم نکلتا ہے اندازہ ہے5ہزار افراد نے نماز ادا کی ہوگی چار نمازوں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے میلہ لگا ہوا ہے ہم نے اس بار نئی بات نوٹ کی جو پہلے کبھی نوٹ نہیں کی تھی۔ کہ شروع سے سنتے اور کرتے آئے تھے کہ دو رکعت نماز عید چھ لفکابیر کے ساتھ کرتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ13 یا14انکابیر کے ساتھ نماز کی۔ جو امام مشافی کا مسلک ہے جس کے تحت پہلی رکات میں٧اور دوسری میں5تکابیر ہونا ہوتی ہیں۔ کچھ نمازیوں کا کہنا تھا14تکابیر تھیں7اور7کھ کا کہنا تھا12تکابیر تھیں۔ وہ حیران بھی تھے کہ پہلے ایسا نہیں ہوا ہم خود بھی تھے کے ہم امام حنفی کے مسالک کو فالو کرتے رہے ہیں۔ لیکن پیر کے دن محمدی مسجد میں جا کر یہ فریضہ ادا کرلینگے۔ اس میں کوئی بری بات نہیں دونوں امام ہیں اور یہ سلسلہ چودہ سو سال سے جاری ہے۔ پھر ہمیں رسول محمد مصطفٰے کا قول یاد آتا ہے۔ ایک امّہ بن کر رہو۔ پھر دیکھتے ہیں پاکستان میں ایک امّہ ہے لیکن افراتفری کا شکار ہے۔ پہلے لوگ آخر عمر میں فرائض کی ادائیگی کے بعد حج پر نکلتے تھے۔ اور محلہ میں ایک یا دو افراد حج پر روانہ ہوتے تھے۔ پانی کے جہاز سے پھر ہوائی جہاز نے کچھ لوگوں کے لئے یہ سہولت فراہم کردی کہ اب وہاں موجود باہر سے آنے والے افراد کی تعداد1083(ایک اعشاریہ تراسی ملین افراد) ملین(18لاکھ تیس ہزار) ہوگئی اس سال یہ باہر سے آنے والوں کی تعداد ہے۔ اورCOVIDکے بعد پچھلے سال سے کچھ زیادہ سعودی حکومت نے باہر سے آنے والوں کے لئے کافی سہولتیں پیدا کردی ہیں اور ایک بزنس کی طرح اب کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں۔ ہم حج کیوں کرتے ہیں پہلی بات کہ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک حج کرے۔ (کچھ لوگ5 سے بھی زیادہ کرتے ہیں) لیکن فرض ایک ہی ہے اس کے لئے خود کفیل ہونے کی شرط ہے اور فرائض کی تکمیل کے بعد ہی ہوتا ہے۔ اب اس سلسلے میں ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے کہ بہت سے لوگ اسے برا نہ سمجھیں لہذا اگلے سال زندگی رہی تو ہی باتیں کرینگے بتاتے چلیں فلسطین میں اسرائیل کے قتل عام اور جنگ بندی کے لئے ہلکی پھلکی دعائیں بھی ہوئیں۔ شہید ہونے والوں کی تعداد35ہزار سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ الجزیرہ پر تباہی، بربادی دیکھ کر دل روتا ہے یہ واحد ٹی وی ہے جو برابر لمحہ لمحہ کی تصاویر دکھا رہا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے اور بے شرمی کا لبادہ پہنے سو رہی ہے۔ انسانی حقوق کا نعرہ اور دعویٰ کرنے والا امریکہ کا سیاست دان بمعہ صدر کے خراٹے لے رہا ہے اور کچھ نہیں کر پا رہا یا کرنا نہیں چاہتا کہ اسرائیل نے کہہ رکھا ہے خاموش بیٹھو جب تک نہ بولو جب تک فلسطین میں ایک بھی فرد نہ رہے۔ ہم اس کے بعد اپنے طریقہ سے ماڈرن غازہ بنائینگے۔ امریکہ کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی یہ بے حسی ہم نے کبھی نہ دیکھی کہ امریکی عوام کا ٹیکس ڈالر بھی اسرائیل، یوکرین کے حوالے کر رہے ہیں ہمیں انتظار ہے نومبر کا بتاتے چلیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو روکنے کے لئے نیویارک کی عدالت میں وہ ہی ڈرامہ ہو رہا ہے جو پاکستان میں عمران خان اورPTIکے سرکردہ لیڈروں کو لئے جاری ہے۔
ایک نہایت ہی نامعقول غلام ذہنیت کا سپہ سالار من مانی کر رہا ہے اور بھول چکا ہے کہ جس درخت کے تنے پر بیٹھا ہے اُسے ہی کاٹ رہا ہے ہر ادارے ہر سیاست دان اور ہر جگہ زمین کو ہتھیایا جارہا ہے اداروں اور سیاست دانوں کو انکی من مانی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ کہ یہ صرف اور صرف عمران کو ٹھکانے لگانے کی کوشش ہے۔ ان کا ہر جھوٹ ہر قریب ہر مکاری اور غداری کا ثبوت مل چکا ہے لیکن عوام خوفزدہ بیٹھے ہیں لیڈر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔ایوب خان سے پہلے ہر کالج اور یونیورسٹی میں مستقبل کے سیاست دانوں کی تربیت ہوتی تھی۔ یونین کے ذریعے، پھر ضیاء الحق نے پابندی لگا دی اور جب سے اب تک کوئی تعلیم یافتہ لیڈر پیدا نہیں ہوا۔ یاد کریں جب ایوب خان نے کراچی کے بارہ طالبعلم لیڈروں کو کراچی بدر کیا تھا وہ حیدر آباد آئے اور کچھ دن بعد وہاں سے بھی نکالے گئے۔ سکھر میں پناہ لی۔ معراج محمد خان جب بھٹو نے پیپلزپارٹی بنائی اس میں شامل ہوگئے۔ اسی طرح پشاور سے حیات محمد خان شیرپائو شامل ہوئے۔ بعد میں بھٹو سے علیحدگی ہوگئی معراج محمد خان نے اذیت ناک جیل کاٹی اور شیرپاو پر بجلی گرا دی گئی مکافات عمل عمل ہوا اور بھٹو کو ضیاء الحق نے پھانسی دے دی پھر مکافات عمل ہوا تو ضیاء الحق آسمان بدر ہوگئے لیکن اب ایسا عرصہ سے کچھ نہیں ہوتا کہ ملک کے ہر شعبے میں منافق بیٹھے ہیں۔ اور شاید اللہ نے بھی اپنی توجہ کہیں اور کر رکھی ہے۔ ورنہ ایسا کبھی نہ ہوتا کہ سندھ میں ایک ظالم زمیندار کا چوکیدار اونٹ کو کھیتوں میں آنے کی سزا کے طور پر اسکا اگلا پائوں کلہاڑی سے کاٹ کر علیحدہ کر دیتا۔
ایک اور حیران کن خبر میں دیکھا کہ کراچی گلشن اقبال میں پان کی دوکان میں تھانے کاDSPرات کی تاریکی میں گھس کر لوٹتا۔ ظفر جاوید نام بتایا گیا ہے ادھر کراچی میں ہی آرمی کے بریگیڈیر کوDHAکے لئے فوجی شہداء کی بیوہ اور بچوں کے لئے چھ ہزار ایکڑ زمین درکار ہے جس پر ان کے لئے مکافات بنینگے۔ سوال پوچھنا تھا اس لفنگے سے کہ کیا کبھی کسی بیوہ کو ڈیفنس یا ملک ریاض کے بحیریا ٹائون میں کوئی رہائش دی گئی ہے ان سب کا مکافات عمل ضروری ہے اللہ سے دعا ہے۔
سعودی عربیہ میں امام صاحب نے بہت اچھی باتیں کیں شاید وہ پاکستانیوں کی خصلت سے واقف ہوں کہ رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا اللہ کی رحمت سے دور ہوگا، انسان کو خیر کے راستے پر چلنا چاہئے اور یہ بھی کہ اسلام فحاشی، برائی اور امانت میں خیانت سے منع کرتا ہے دہشت گردی کرنے والے اسلام کے دشمن ہیں۔ غور کیجئے کیا اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کچھ نہیں ہو رہا۔
ان سب باتوں کے تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے مذہب سے کافی دور جاچکے ہیں۔ واپسی نامکن ہے اس لئے کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے آدمی کے جنرلز کر رہے ہیں اور کرا رہے ہیں۔ یہ وہ شیطان ہیں کہ اب اصل شیطان کو وہاں رہنے کی ضرورت نہیں۔
سقراط نے کہا تھا۔ انسانیت کوئی مذہب نہیں ہے۔ بلکہ ایک منزل ہے جس تک کچھ لوگ پہنچتے ہیں” اور یہ لوگ اس ترتیب سے ہیں۔ منڈیلہ، عبدل ستار ایدھی، ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ، ڈاکٹر ادیب رتن ٹاٹا، چی گوائرا، مائوزے تنگ، ڈاکٹر قدیر خان، اور اداکار شان جو پیسوں کے لئے بالی وڈ میں نہیں بکا انکی ہر آفر کو مسترد کردیا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭