حج کے اِن دنوں میں، لاکھوں مسلمانوں کی حرمِ کعبہ میں حاضری اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی بے چینیاں اور والہانہ پن دیکھ کر ایک زمانہ ورط حیرت میں ہے۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی کاوشوں سے بنا ہوا خانہ کعبہ، صدیوں سے، فرزندگانِ توحید کی توجہات کا مرکز و محور بنا ہوا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ رہتی دنیا تک ایسے ہی رہے گا۔ ہر سال کروڑوں زائرین یہاں، پروانہ وار حاضر ہوتے رہیں گے اور موسم کی گرمیاں و سختیاں سہتے ہوئے، اپنے رب کی وحدانیت کی گواہی دیتے رہیں گے۔جدہ ائیرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہم ذہنی طور پر مکمل تیار تھے کہ آنے والے کئی گھنٹے بڑے مشکل گزریں گے۔امیگریشن اور دیگر معاملات ادا کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ کئی لوگوں سے جھگڑنا پڑے گا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب حقیقت اس کے بالکل برعکس ثابت ہوئی۔ حاجیوں کے استقبال کیلئے موجود سرکاری و غیر سرکاری افراد نے اپنی ساری توجہ ہم پر ہی مرکوز کر کے چند منٹوں کے اندر ہی ہماری امیگریشن مکمل کرکے ہمیں سامان لانے والی بیلٹ تک پہنچا دیا۔ سب سے زیادہ خوشی یہ ہوئی کہ ہمارے محترم دوست ڈاکٹر اظہر صدیق صاحب نے جو ویکسینیشن تجویز کی تھی، وہی یہاں کے حکام نے من و عن قبول کرلی اور ہم مزید کوئی قطرے پینے سے بچ گئے۔ اتفاقا ہمارا سامان بھی فورا ہی آگیا۔ اپنے سعودی میزبانوں کی مدد سے ہم مزید چند منٹوں میں ہی ایک خالی بس پر سوار کردئیے گئے۔ بلکہ تحائف کے کچھ خوبصورت پیکنگ والے باکسز بھی ہماری نذر کئے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمیں انتظار کروانے کی بجائے، بہت بڑی بس ہم صرف پانچ چھ لوگوں کو لے کر مکہ کی جانب فوری طور پر روانہ بھی کردی گئی۔ بعد میں جب یہاں کے کچھ پرانے لوگوں سے اس آ بھگت کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ سعودی حکومت نے ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے حج کے سارے پراسس کو بہت بہتر بنا لیا ہے۔ نوجوان اور خاص طور پر خواتین کو ملازمتیں دے کر تربیت دی گئی ہے اور اب پرانے یلا والا سسٹم متروک ہو گیا ہے۔ آج میں نے ایک دفعہ بھی ایئرپورٹ پر یہ لفظ یلا نہیں سنا۔ تقریبا سارے کارندے ہمارے سامنے اس طرح بچھے جا رہے تھے کہ جیسے اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ ساتھ انہیں کیمرے کی آنکھ بھی کہیں نہ کہیں سے دیکھ رہی ہو۔اپنے ہوٹل پہنچ کر چند گھنٹے آرام کیا۔ سفر کی تکان کچھ کم ہوئی تو رات کے پچھلے پہر سفرِ حج کے دوران، کعب اللہ کی پہلی حاضری کیلئے مسجدِ حرام جا پہنچے تاکہ عمرہ ادا کیا جا سکے۔ ہمارے ایک مقامی دوست مطیع اللہ ہاشمی صاحب نے کمال مہربانی کرتے ہوئے، حرم کے بالکل قریب جاکر ہمیں اپنی گاڑی سے اتارا تاکہ زیادہ چلنا نہ پڑے۔ امریکہ سے نکلتے وقت، ہمارے عزیز دوست، ڈاکٹر قیصر عثمانی صاحب نے ہمارے بائیں گھٹنے کو ایک طاقتور انجیکشن سے کافی مظبوط کردیا تھا تاکہ ڈاکٹر محمود عالم بھائی کی میرے لئے کی گئی یہ دعا قبول ہو سکے کہ میں اپنے پاں پر چل کر مطاف کے اندر طوافِ کعبہ کر سکوں۔ الحمداللہ، بالکل ایسے ہی ہوا۔ اپنے نوجوان بچوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم دونوں میاں بیوی مقامِ ابراہیم کی اس جالی تک بھی پہنچے جہاں انکے نقشِ پا آج تک محفوظ ہیں. رش بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے حجرِ اسود کا بوسہ تو ممکن نہ ہو سکا، اس لئے والے بوسے کو یاد کرکے ہی گزارہ کرنا پڑا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی یہ سعادت حاصل کرنے کیلئے ہمیں جلد ہی کوئی اور موقع فراہم کریں ۔خانہ کعبہ کو سامنے پاکر جو کیفیت طاری ہوئی، وہ تو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ البتہ اس حقیقت سے کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حرم تک پہنچاتے ہوئے مطیع اللہ ہاشمی بھائی نے کچھ ٹشو پیپر مجھے پکڑا دئیے تھے، ان کا استعمال خوب اور بر محل ہو گیا۔ دوست، احباب، رشتہ داروں اور اپنے دماغ نے جو دعائیں مجھے اللہ سے مانگنے کیلئے کہی تھیں، انہیں اپنے دل کے حوالے کیا تاکہ اس کے ذریعے یہ ربِ کائنات تک پہنچیں اور انکی قبولیت کے امکانات بڑھ جائیں۔ علامہ اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا کہ:
عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکا اس پر
کس کی منزل ہے الہی! مرا کاشانہ دل
اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا
دل کسی اور کا دیوانہ ، میں دیوانہ دل
تو سمجھتا نہیں اے زاہد ناداں اس کو
رشک صد سجدہ ہے اک لغزش مستانہ دل
خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے
وہ اثر رکھتی ہے خاکستر پروانہ دل
پورے طواف کے دوران، ہمرا دل یہ ساری دعائیں اپنے رب تک پہنچاتا رہا۔ غزہ کے مظلوموں کیلئے دعائیں کرتے ہوئے بڑی عجیب کیفیت ہوجاتی تھی۔ پاکستان کے حالات بھی بیحد ناگفتہ بہ ہیں۔ آبائی وطن ہونے کے ناطے دوسرے نمبر پر دعائیں پاکستان کیلئے تھیں۔ آئندہ نسلوں کے لئے بھی بہت دعائیں کیں کہ وہ پرچمِ اسلام کو بلند رکھتے ہوئے، دینِ اسلام کا چرچا ہر طرف عام کردیں۔صفا و مروہ کے درمیان سعی کا مرحلہ آیا تو ہمیں وہیل چئیرز کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بہت آسانی سے دو چئیرز کا انتظام ہو گیا۔ سعی کے ختم ہوتے ہی نمازِ فجر کا وقت ہوگیا۔ سعی کے ایریا میں ہی نماز ادا کی اور حرم سے باہر نکل آئے تاکہ بال کٹوا کر عمرے کی تکمیل کی جا سکے۔عمرے کے دوران، غزہ کے مظلوموں کی آہیں حرمِ کعبہ میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی رہیں۔ لاکھوں افراد کی یہاں موجودگی، انکی دعائیں، انکی دولت اور پچاس سے زائد آزاد مسلمان ممالک کی حکومتیں، اپنے فلسطینی بھائیوں کو مایوس کیوں کر رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی شاید علامہ اقبال دے چکے ہیں۔
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
٭٭٭