حج مبرور،حجاج مجبور!!!

0
8
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

الحمد للہ حج مکمل ہو گیا،ہم نیویارک سے پانچ جون کو چلے تھے اور آج اٹھارہ جون کو حج مکمل ہو گیا۔الحمد للہ۔ اس بار سہولتیں اور صعوبتیں ملی جلی تھیں بلکہ صعوبتیں زیادہ اور سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ سو سال کے بعد عرب حلمرانوان کو امیگریشن کا کچھ طریقہ ضرور آگیا۔ معلم مطوف کے دفاتر میں اتنی دیر اب نہیں لگتی ہے۔اس بار ایسے لگا کہ حاجی بے حد مجبور ہیں۔ ائر پورٹ سے حجاج کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکایا جانے لگتا اور مناسک حج میں بھی بے عزت کیا جاتا رہا ہے،اس سفر میں ایک دن بھی تکریم یا تعظیم یا توقیر یا احترام دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہاں کچھ پولیس والوں کو حاجیوں پر پانی چھڑکتے ضرور دیکھا گیا ۔ تاہم پکڑ دھکڑ کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی حاجی احرام خریدنے گیا اور نسک کاکارڈ بھول گیا تو اسکی خیر نہیں ہے وہ دھر لیا جاتا رہا،اگر کارڈ دکھا بھی دیا تو اناڑی چیکر خود چکرا جاتے تھے، غیر قانونی حجاج کی پکڑ دھکڑ عروج پر تھی۔
حرم میں داخلہ کی شرط احرام قرار دیا گیا تو گناہ بخشوانے واے جھوٹے منہ احرام پہن کر طواف کرتے رہے۔ یہ کوئی راست اقدام نہ تھا۔ کہ آدمی صرف داخل حرم کیلئے جھوٹ کا سہارا لے۔ حرم کے تقدس کا چنداں خیال نہیں رکھا گیا ۔ اسلئے کہ جوتوں کے ساتھ طواف ہوتا رہا۔ ہم جیسے سادہ لوح حاجیوں کے پاں روندے جاتے رہے۔ سعء صفا و مروہ میں تو جوتوں کا راج تھا۔ اللہ نے حضرت موسی ع کو طور پر جوتوں کے ساتھ اجازت نہ دی مگر مسلمان حرم الہی میں جوتوں سے پھرتے رہے اور پھر رہے ہیں۔ مسلمان عام مسجد میں جوتوں کے ساتھ نہیں جاتے کاش کہ یہ سطور بادشاہوں کے کانوں تک پہنچ جائیں۔ اسبار قیام و طعام پہلے سے اچھا تھا مگر معلم کی بسوں کا بہت برا حال تھا۔ جو بس جاتی وہ آنے کا نام نہ لیتی تھی۔ ہم حاجی ہونک بنے بسوں کے پیچھے پیچجے دوڑتے رہتے۔ سب سے زیادہ تکلیف حاجیوں کو منی میں ہوئی جہاں گھبرائے ہوئے پولیس والے اور اہلیان حل و عقد آگ بگولا نظر آتے۔ عرفات مزدلفہ اور منی میں بہت لوگ مر گئے۔ منی کے وہ ناقص انتظامات تھے کہ باتھ روم نہ ہونے کے برابر پانی دور دور تک خال خال ملتا تھا۔ مین شاہراہوں پر میلوں میلوں ریستوران نہیں ملتے۔ کوئی شربت نہیں کوئی چائے کافی نہیں، کوئی ایمرجینسی خورد و نوش کا اہتمام نہیں۔ میڈیکل سروسز بھی بہت خراب۔ کوئی نہ مرنے سے پہلے خبر لیتا اور نہ مرنے کے بعد کوئی لاش اٹھاتا تھا۔ کسی کو انگریزی نہیں آتی ہے۔ نہ کوئی اور زبان، اس بار جمعرات کو روانگی اور وہاں سے واپسی اتنی مشکل بنادی گئی تھی کہ ہر ایگزیٹ بند کر دی جاتی ۔ ایک ہمارے ملتان کے حاجی چالیس کلومیٹر چل کر ہمارے ہوٹل آئے،جو گم ہو جاتا وہ ملتا ہی نہ تھا۔ ہماری ایک حاجن بہن چاردن کے بعد ملیں ۔ کئی ہمارے حاجی چوبیس چوبیس گھنٹے بعد پہنچے۔ ایک گھنٹے کا سفر ایک دن میں ہوتا۔ ٹریفک کا برا حال پالیوشن ہوش اڑاتی رہی۔ معلم کے خیموں میں پچاس فیصد بستر ہوتے تھے جبکہ چارج پورا کر تے تھے۔ عرفات مزدلفہ اور منی کے ناقص انتظامات ہیںاگر چاہتے تو تینوں میدانوں کو ائیر کنڈیشنڈ کر دیتے ۔ ٹرین کبھی چلتی اور کبھی نہیں چلتی تھی،روڈز کا جال بچھا سکتے تھے،سارے مناسک کو سایہ دار بنا دیتے۔حاجیوں کے سر بدن ابل رہے تھے۔ تاہم حاجیوں کو ہر حال میں صابر شاکر پایا۔ ٹیکسیاں، کوسٹر اور بسیں دس گنا چارج کر رہی ہیں ۔ سعودی فرمانروا تھوڑی حکمت عملی استعمال کریں اور حاجیوں کیلئے آسانیاں بنائیں دعائیں لیں۔ بددعائیں نہ لیں۔ اللہ خیر کرے!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here