آج آپ کا مضمون اقبال اور فلسطینی جہادِعشق جو روزنامہ سلطان ملتان میں شائع ہوا ،واٹس ایپ پر پڑھا۔ نہایت ہی فکر انگیز اور درد آمیز تحریر ہے۔ علامہ اقبال نے اسرائیل کی تباہ کاریوں اور فتنہ سامانیوں کا ذکر میں کیا تھا اور آج وہ حرفِ بہ حرف درست ثابت ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال مسلمانوں کے زوال کاسبب ملوکیت اور ملائیت کو قرار دیتے تھے۔ جب تک یہ دو قباحتیں ختم نہیں ہوتیں،مسلمانوں میں نہ اتحاد ہو گا اور نہ استعمار کے شکنجے سے نجات حاصل کر سکیں گے جس بے دریغی سے آج فلسطینیوں کا غزہ میں قتلِ عام ہو رہا ہے اور دنیائے اسلام خاموش ہے اِس سے زیادہ بے غیرتی اور بے حمیتی اور کیا ہو گی؟ لاکھوں مسلمان اِس ماہ حج کر رہے ہیں۔اللہ اِن کا حج قبول فرمائے اور اِن کے گناہ معاف کرے۔ آمین لیکن اِن میں ایسے بھی حاجی ہیں جو پچھلے گناہ اِس لیے معاف کروانے کعبہ جاتے ہیں تاکہ اگلے گناہ کیے جائیں اور آئندہ پھر حج کی سعادت حاصل کریں۔ اِن کے لیے حج ایک ڈرائی کلینک ( Dry Cleaning) مشین ہے۔
حجاج کعبہ کا طواف کرتے وقت اللہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں اللھم لبیک اے اللہ ہم حاظر ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کو اِن سے کیا کام ہے جس کے لیے یہ حاضر ہیں؟ یہ اللہ کی کون سی خدمت بجا لا سکتے ہیں؟ اللہ کو اِن کی کیا ضرورت ہے؟ اِن سوالات کا کیا کوئی معقول جواب ہے؟ معاملہ یہ ہے کہ اسلام ظالمین کے خلاف تیغِ بے نیام ہے۔ اللہ کے گھر حاضری کا یہ مقصد ہے کہ اللہ سے پیمان باندھو کہ ہم انسانیت کے تحفظ، اسلام کے نفاذ اور ظلم و جبر کے خلاف جہاد کریں گے اور اِس سفید احرام کو سرخ خونیں کفن بنا دیں گے لیکن اجبار، استکبار،استعمار، اور استبداد کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے کیونکہ یہ سر صرف اللہ کے آگے جھکتا ہے۔ اسلام کا مقصد اور حج کا فلسفہ سرکارِدو عالم کے بعد کوئی سمجھا ہے اور اس نے جان کی بازی لگا دی ہے تو وہ صرف اور صرف سید الشہدا حضرت امام حسین ہیں۔ اللھم لبیک کہنا ہے تو سنتِ حسین ادا کرو اور فلسطین کی طرف مارچ کرو۔علامہ اقبال نے فلسطین کی آزادی کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا تھا!
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ رسمِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
٭٭٭