وطن عزیز پاکستان آج جن حالات سے دوچار ہے، انہیں دیکھ کر ہمیں یہ احساس شدت سے ہونے لگا ہے کہ کیا ہمارے بانیان کی جدوجہد ایک علیحدہ آزاد، خود مختار اور مساویانہ حقوق کے حامل وطن کے حصول کیلئے درست تھی، کیا ہمارے والدین اور اجداد کی ہجرت اور لاکھوں قربانیوں کا نذرانہ مثبت اقدام تھا، یا پھر برطانوی سامراج نے اپنی لامحدود حکمرانی کو مقامی سامراجی وفاداروں کو حق حکمرانی کے ذریعے اپنے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے تقسیم کا کھیل کھیلا تھا کہ آج بھی آزادی کے نام پر وطن و عوام ہر طرح کی سہولت، راحت، اظہار رائے اور حق سے محروم ہیں۔ ریاست، مملکت، حکومت سے لے کر عام لوگوں کے حالات زندگی اور اوقات کے فیصلے اور کنٹرول ان ہی قوتوں کے ہاتھوں میں ہیں جنہیں سامراج نے اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی، اشرافیہ، وڈیروں، چوہدریوں، سرداروں اور خانوں کی صورت میں اپنی نیابت کیلئے چھوڑا تھا۔ آج بھی حالات وہی ہیں جو غیر منقسم ہندوستان میں ہوا کرتے تھے۔ آزادی اظہار پر قدغن، سچ اور حق کہنے والوں کی آواز بند کرنا، پابندیاں، قید و بند، خواتین سمیت آواز بلند کرنے والوں پر ظلم و تشدد، گرفتاریاں، آبرو ریزی، غائب کر دینا حتیٰ کہ حکمرانوں کے ناپسنددیدہ لوگوں کو زندگی سے محروم کر دینا، متاثرہ افراد و خاندان پر اس حد تک مظالم و نفسیاتی اور ہتک آمیز سلوک کہ معصوم بچے بھی متاثر ہو کر جان کی بازی ہار جائیں۔ یہ سب کچھ سامراجی دور میں بھی ہوتا رہا اور آزاد جمہوری پاکستان میںبھی ہو رہا ہے۔ فرق کیا ہے اور کیسی آزادی، کیسی جمہوریت، ہر کام ہر اقدام ڈنڈے اور جبر کے زور پر ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایکٹویسٹ عباد عمر کے 9 مئی کے واقعہ میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد اس کی بیوی اور ماں کیساتھ پولیس کی دیدہ درینئی، تذلیل اور غیر انسانی حرکات سے 9 سالہ بچہ عمار عباد کے انتقال کا واقعہ انسانیت کی تذلیل کا ایسا گھنائونا واقعہ ہے جو کسی مذہب، تہذیب، اخلاق اور معاشرت کے حوالے سے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ معصوم عمار کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک حریت پسند کا بیٹا تھا جس نے وقت کے مقتدرین کیخلاف عَلم بغاوت بلند کیا۔ معصوم عمار باپ کی گرفتاری اور ماں و دادی پر آبروریزی و جبر کے سبب اس کیفیت میں چلا گیا جس کا نتیجہ اس ننھے بے قصور کی موت پر ہوا۔ عمار کی ہلاکت پر ہر صاحب اولاد جس طرح تڑپا جس طرح اس کے جنازے پر لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا وہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ عوام ظلم و جبر کرنے والے، ڈنڈے کے زور پر حکومت کرنے والوں سے کس قدر متنفر ہیں۔ عوام کے حقیقی رہنمائوں اور عوام کے احساسات سے لاتعلق و بے پرواہ فیصلہ ساز اپنے اہداف کے حصول کیلئے نہ صرف قید و بند، تشدد، سختیوں اور آزادی اظہار پر پابندی لگا کر بلکہ آئین سے ماورائی اور عدالتی فیصلوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنی من مانی پر عمل پیرا ہیں۔ وطن عزیز کے سیاسی و معاملات اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ اپنے عوام اور محب وطن قائدین ہی نہیں بین الاقوامی حکومتیں اور ادارے سیاسی و معاشی ابتری کی نہ صرف نشاندہی کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے وارننگ دے رہے ہیں۔ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے معاشی تنزلی کے حوالے سے واضح کر دیا ہے کہ اگر 2047ء تک بھی پاکستان کے معاشی استحکام کو یقینی بنانا ہے تو زرعی شعبہ اور ریٹیل مارکیٹنگ کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا، کرپشن اور غیر ترقیاتی اخراجات خصوصاً حکومتی و بیورو کریٹک خرچوں پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ دوسری طرف امریکی و دیگر ممالک کے حکومتی ذمہ داروں نے سیاسی غیر یقینی اور ملک میں شفاف و منصفانہ، غیر جانبدارانہ انتخاب اور جمہوری نمائندہ حکومت کیلئے قیام پر زور دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں، جس طرح موجودہ اصل حکمران (اسٹیبلشمنٹ) اور اس کی لے پالک عبوری حکومت نظام حکومت ڈنڈے کے بل پر چلا رہے ہیں اور عدالتی فیصلوں پر عمل کرنے کے برعکس اقدامات کر رہے ہیں وہ انصاف کے تقاضوں کے قطعی برعکس ہیں۔ عدالت سے پی ٹی آئی کی 9 خواتین کی ضمانت و رہائی کے واضح احکامات اور لواحقین کو حوالگی کے برعکس پولیس کے حوالے کرنے اور دوبارہ گرفتار کرنے کا عمل عدلیہ کے احکامات دُھول میں اُڑانے کے مترادف اور ظلم کی انتہاء ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی اور عوام کی حفاظت کے ذمہ داروں کو اپنے فرائض کا ادراک وشعور نہیں یا منفی مقاصد پورے کرنے کیلئے وہ انسانیت اور تہذیب، اقدار سے بھی دُور ہو چکے ہیں۔ لگتا ہے ان مقتدرین اور ان کے نمک خواروں کے گھروں میں مائیں، بیویاں، بہنیں، بیٹیاں نہیں یا پھر ان کے دلوں میں خواتین اور خاندانوں کا کوئی احترام و احساس نہیں اور نہ یہ خیال ہے کہ خواتین پر ایذا رسانی دین و انسانیت کیخلاف ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ موجودہ فیصلہ سازوں اور ان کے گماشتوں نے عہد کر لیا ہے کہ تمام تر کام اور اقدامات کی تکمیل ڈنڈے کے زور پر ہی کرنا ہے۔ مقتدرین کی چھتر چھایا میں معیشت کی بہتری کیلئے نہ صرف بجلی چوروں، لٹیروں، اسمگلرز اور کارٹلز کیخلاف ایکشن و سہولت کاروں کی گرفتاریوں، ریکوریوں کا سلسلہ جاری ہے تو نیب میں سابق چیف جسٹس کے فیصلے پر عملدرآمد اور کیسز کو انجام تک پہنچانے کیلئے میجر جنرل سے میجر رینک کے آٹھ ایکٹو سروس کی نامزدگی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ڈنڈے کے زور پر اقدامات، فیصلوں اور عمل سے اگر مثبت نتائج نکل سکتے ہیں تو ملکی معیشت کی بہتری کیلئے اُن لٹیروں، ڈکیتوں کو کیوں ہدف نہیں بنایا جاتا جو حکمرانی کے مزے لوٹتے اور بیرون ملک اپنے اثاثے، جائیدادیں اور بینک بیلنس بناتے رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے کم از کم یہ تو ہوگا کہ عوام کی لُوٹی ہوئی دولت واپس ملکی معیشت کی بہتری میں کام آئے گی۔ ہماری عرض یہ ہے کہ ہر کام ڈنڈے کے زورپر خصوصاً تعمیر وطن اور عوام کی خوشحالی کیلئے نہیں ہوا کرتا بلکہ مصالحت، مذاکرات و باہمی معاونت و اتفاق سے آئین و جمہوریت کے مطابق ہی ہے۔ یہی ہمارا مدعا ہے۔
٭٭٭