صہیونی ریاست یا گریٹر اسرائیل!!!

0
11
شمیم سیّد
شمیم سیّد

سب سے پہلے یہودیت اور صہیونیت کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ یہودیت ایک مذہب اور صہیونیت ایک اتنہا پسند سیاسی اور ریاستی ایجنڈہ ہے۔ آسان الفاظ میں بنی اسرائیل کے افراد جو یہودیت پر یقین رکھتے ہیں اور تورات کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر نا چاہتے ہیں وہ یہودی ہیں۔ انکا اعتقاد ہے کہ ان پر جو مشکلات آتی ہیں وہ خدا کی جانب سے امتحان ہے اور یہ کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی ریاستی یا سیاسی ایجنڈا اختیار کرنا تورات کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسی لیے وہ یروشلم پر قبضہ یا اسرائیل کے زبردستی قیام کے بھی مخالف ہیں ۔ گزشتہ دنوں اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کا ایک نقشہ جاری کیا ہے جس میں اردن، شام اور لبنان کے بہت سے علاقے شامل ہیں۔ جس طرح بابری مسجد کی شہادت کے لیے بھارت کے انتہا پسند ہندئووں نے یہ ہٹ دھرمی دکھائی تھی کہ پانچ ہزار برس قبل یہ جگہ ایک مندر تھی اسی طرح اس نقشے کی ایک تاریخ بھی بیان کی گئی ہے جس کے مطابق اسرائیل کی سلطنت تین ہزار برس قبل سائول نامی بادشاہ نے قائم کی تھی۔ اسکے بعد ڈیوڈ (حضرت دائود ) اور پھر سالومن(حضرت سلمان) نے وہاں حکومت کی۔ اگر اس منطق کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ بھی پوچھنا پڑے گا کہ اس سے قبل یہ علاقہ کس کی ملکیت تھا کیونکہ پھر اس جگہ کے اصل مالک تو وہ ہوئے ، اور پھر اس سے قبل۔اس اصول کے مطابق یہودیوں نے بھی تین ہزار برس قبل اس زمین پر ناجائز قبضہ کیا تھا۔تین ہزار برس قبل تو امریکہ کا بھی کوئی وجود نہیں تھا اور امریکیوں کو امریکہ خالی کر دینا چاہئے۔ اس نقشے میں تین ہزار برس قبل کے مجوزہ اسرائیل کو تو دکھایا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس گریٹر اسرائیل کی سرحدیں کس کس ملک سے ملتی تھیں۔ اس سے قبل بھی کئی صہیونی تنظیمیں اس قسم کے نقشے جاری کر چکی ہیں ۔ گزشتہ برس چوبیس ستمبر کو ایسا ہی ایک نقشہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے وقت مسٹر نیتن یاہو نے بھی لہرایا تھا (جس میں بھارت کو باعث برکت بھی دکھایا گیا تھا)۔ اس بار یہ نقشہ اسرائیل کی وزارت خارجہ نے سرکاری طور پر جاری کیا ہے اس لیے زیادہ سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ امید کے مطابق سعودی عرب سمیت بہت سے عرب ممالک نے اس نقشے کی مذمت کی ہے۔ امت مسلمہ اس وقت اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتی ہے۔ یہی بہت ہے۔ جب اسرائیل اپنے وجود کی اتنی پرانی تاریخ بیان کر رہاہے تو ہمیں بھی یہودیت اور صہیونیت کی تاریخ اور ان کے درمیاں فرق کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تورات کی تعلیمات کے مطابق ان کے مسیحا کے آنے سے قبل یہویوں کے لیے اپنی الگ ریاست (اسرائیل)کا قیام ان کی اصل مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسی لیے خود یہودیوں میں صہیونیت کے خلاف بھی کچھ تحاریک چل رہی ہیں اسکے بعد 1896 میں Theodor Herzl نامی ایک شخص ، جو نسل سے تویہودی تھا لیکن سیکولر یعنی لا دین تھا، نے اس نظریے پر باقاعدہ عملی کام کا آغازکیا۔اس نے پہلے یورپ کے یہودیوں پر مظالم اور پھر مبینہ ہالوکاسٹ کو اپنی تحریک کی بنیاد بنایا۔ ہالوکاسٹ ایک حقیقت ہے یا افسانہ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مغربی دنیا ویسے تو لاکھوں برس قبل پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات فخر سے کرتی ہے لیکن ہالوکاسٹ کے بارے میں تحقیق کرنے کی بات کرنے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ بات کرنے والا ہالوکاسٹ سے انکا ر کر رہا ہے اور ان ممالک میں ایسا کرنے کی سخت سزا کے قوانین موجود ہیں ۔( یہاں آ کر ان ممالک کا آزادی رائے کا فلسفہ فوت ہو جاتا ہے)۔ خیر اسکے بعد انہوں نے یہودیوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے انکی عبرانی کتب میں موجود نظریے ” The Return to Zion” کو بنیاد بنا لیا۔ اگلے ہی برس یعنی 1897 میں بہت سے انتہا پسند یہودی اسکے ساتھ مل گئے اور انہوں نے باقاعدہ Zionist (صہیونیت) تحریک کا آغاز کر دیا ۔ صہیونیت کی بنیاد یہودی مذہب کے بجائے اس بات پر ہے کہ تمام دنیا نے ان پر بے شمار ظلم کیے ہیں اور اب انکا حق ہے کہ وہ تمام دنیا سے اپنے اوپر کیے جانے والے مبینہ مظالم کا بدلہ لیں ۔ تورات کی تعلیمات کے برخلاف انکا نظریہ ہے کہ اپنی ریاست ( گریٹر اسرائیل) کے قیام کے لیے کسی بھی علاقے پر زبردستی قبضہ اور قتل و غارت کرنا انکا حق ہے کیونکہ وہ تمام مذاہب اور تمام نسلوں سے اعلی اور افضل ہیں۔ اس انتہا پسند ریاستی ایجنڈے کے بہت سے اتحادی ہیں جن میں کرسچن ( عیسائی ) بھی شامل ہیں۔ انہیں عیسائی صہیونی (christian zionist) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ بظاہر تو عیسائی ہیں لیکن اسرائیل (صہیونیت) کی حمایت میں یہ لوگ یہودیوں سے بھی آگے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فلسطین کا علاقہ (بشمول یروشلم) برطانیہ کے تسلط میں چلا گیا۔ 1896 سے 1948 کے دوران ہزاروں لاکھوں یہودیوں نے صہیونی تحریک کے زیر اثر تمام دنیا سے اس علاقے کا رخ کیا۔ اقوام متحدہ نے 1947 میں فلسطین اور اسرائیل کی تقسیم کا امن منصوبہ پیش کیا جس میں یروشلم کو ایک خاص اہمیت دی ، اور کہا گیا کہ اس شہر کا کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس ہوگا۔ لیکن اگلے ہی برس 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد صہیونی طاقتوں نے اس شہر کے مغربی علاقے پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا ۔ بعد ازاں 1967 میں اس مقدس شہرکے مشرقی حصے پر بھی( شام، مصر اور اردن کو شکست دینے کے بعد) صہیونی طاقتوں کا قبضہ ہو گیا۔ 1980 میں اسرائیل میں قانون یروشلم پاس کیا گیا جس کے مطابق تمام یروشلم کو اسرائیل کی ملکیت اور دارالحکومت قرار دے دیا گیا۔ اسکے جواب میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے اسی برس اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا ( بذریعہ قرار داد نمبر 478) لیکن اس سمیت اس بارے میں اقوام متحدہ کی اور بہت سی قرار دادوں کا بھی وہی حشر ہوا جو آج تک کشمیر کے متعلق قررادادوں کا ہوتا آ رہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here