احسن اقبال چوہدری ہیں اور راجپوت بھی!!!

0
11
حیدر علی
حیدر علی

شریف برادران نے اپنی کابینہ کے نااہل وزیروں کی جن کی تعداد اکثریت میں ہے اُن کے بیانات کو اخبارات میں شائع نہ کرنے کا حکم دیا ہواہے چونکہ وہ وزرا اتنے زیادہ ایڈیٹ ہیں کہ اگر اُن کے بیانات شائع ہونا شروع ہوگئے تو اُن کی حکومت کا دھرن تختہ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی،مثلا”مثال لیجئے اُن کے ایک وزیر احسن اقبال کی جو چوہدری بھی ہیں اور راجپوت بھی ، گزشتہ ہفتے جب میں صبح کو ناشتے کے بعد چائے پیتے ہوئے پاکستان کی نیوز دیکھ رہا تھا تو احسن اقبال چوہدری وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کچھ بکواس کر رہے تھے، موصوف فرمارہے تھے کہ سقوط ڈھاکا 9 مئی کی واردات سے مماثلت رکھتا ہے، اُن کا یہ بیان سن کر میں چونک کر رہ گیا، سقوط ڈھاکا کا تعلق ایک بیرونی ملک سے تھا جس میں بھارت نے اپنی جارحیت سے مشرقی پاکستان کو مغربی حصے سے علیحدہ کرنے کی سازش کی تھی اور اُسے پاکستان کی اسٹرایٹیجی کمزوری کی بنا پر علیحدہ کر دیا تھا، پاکستان کی فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نیازی نے اور بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل جگیت اڑوڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے لیکن 9 مئی کی واردات ایک سیاسی مظاہرے کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھی جس میں پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے حالات کو سنگین بنانے کیلئے خود اپنے تنصیبات کو آگ لگا ئی تھی، تحریک انصاف کی جانب سے منظم کئے ہوئے اِس مظاہرے میں شرکا کی تعداد لاکھوں میں تھیں، صبح کو گھر سے نکلے ہوئے تحریک انصاف کے سادہ لوح کارکن ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر واپس نہیں آئے تھے، اُنہیں فوج یا پولیس کی گولیوں سے بھون دیا گیا تھا یا نہیں تو گرفتار کرکے ٹریکٹر ٹریلر میں بغیر کسی کھانا یا پانی یا عدالتی کاروائی کے دنوں قید و بند میںرکھا گیا تھا، بعدازاں گرفتار شدہ کارکنوں کے لواحقین بھی گرفتار کر لئے گئے تھے ،پاکستان کی پولیس ایک گرفتار شدہ کارکن کی رہائی کی فیس ایک لاکھ روپے رکھی تھی، آج بھی تقریبا”تین ہزار کے قریب تحریک انصاف کے کارکن پاکستان میں قید و بند کی صعوبتیں گزار رہے ہیں، مسئلہ صرف تحریک انصاف کا نہیں بلکہ پاکستان میں انسانی حقوق کا بھی ہے، پاکستان کی حکومت اُسی طرز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جیسا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے خلاف اور ضیاالحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے خلاف روا رکھا گیا تھااور اُس دور کی حکومتوں کی یہ تمام تر کوششیں تھیں کہ اُن پارٹیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے، بنگلہ دیش میں اُس کا منطقی انجام دیکھ لیا گیا اور اب پیپلز پارٹی کے بعد تحریک انصاف ایک رول ماڈل بن گئی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اِس کے رہنما عمران خان کو بھی شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔احسن اقبال وفاقی وزیر منصوبہ بندی وکیپیڈیا پر اپنا جو اسناد تعلیم پیش کیا ہے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری کی ساری ڈگریاں جعلی ہیں، اُن کی ڈگریوں کے بارے میں خود اُن کے بیانات متضاد ہیں اور وہ خود ہی یہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے یہاں سے بھی تعلیم حاصل کی تھی اور یہاں سے بھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن جن مدرسوں میں اُنہوں نے پڑھا تھا اُن سبھوں کو ایک کاغذ پر درج کرتے اور پھر وکیپیڈیا کو روانہ کرتے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیر منصوبہ بندی ہوتے ہوئے بھی اُن میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے ، ویسے بھی پاکستان کی حکومت قرض ، زکوة وخیرات کے پیسے پر چل رہی ہے ، اُس کے پاس اتنا فنڈز ہی نہیں جو وہ کسی پروجیکٹ کیلئے کوئی منصوبہ بندی کرسکے،پاکستان کے عوام کا یہ سنتے سنتے کان پک گیا ہے کہ ملک کی معیشت مستحکم ہورہی ہے اور آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کا یہ آخری سال ہے ، اور پھر ایک ہفتے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس بجلی کی قیمت کم کرنے کیلئے پھر جانا ہے اور بالفاظ دیگر پھر بھیک مانگنا ہے اور پھر قرض کی ادائیگی ایک دوسرا ڈراؤنا خواب بنا ہوا ہے، متحدہ عرب امارات نے جب دو بلین ڈالر کے واجب الادا قرض کی رقم کو موخر کردیا تو مسند اقتدار پر متمکن حضرات
نے اُس کا جشن منایا جیسے دو بلین ڈالر کی رقم اُن کے باپ نے اُنہیں دے دی ہے،اِس لئے امر ظاہر ہے کہ حکومت کو نہ کسی وزارت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور نہ ہی احسن اقبال جیسے ایڈیٹ وزیر کی،اُنہیں پاکستان کے خزانے سے جو تنخواہیں دی جارہی ہیں وہ سب کی سب ضیاع ہی ضیاع ہیں، اُن کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ٹی وی پر آکر عمران خان کے خلاف اُلٹا سیدھا بیان دیں،صرف ڈگری ہی نہیں وکیپیڈیا پر اُن کی تاریخ پیدائش بھی دو مختلف ہیں جسکا مطلب یہی ہے کہ وہ دومختلف دِن پیدا ہوئے تھے، اور ایک عجیب الخلقت شے ہیں،حکومت پاکستان کے وزرا نے بنگلہ دیش کا بھی ایک نیا شوشہ شروع کیا ہوا ہے جیسے کہ بنگلہ دیش کی حکومت اُنہیں اپنے خزانے سے بلین آف ڈالرز ازراہ شفقت دے دیگی، یہ اُسی طرح کا ایک ہوّا ہے جیسا کہ ماضی میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں تیل نکل آیا ہے اور تیل سے بھری ہوئی ایک بوتل بھی ٹی وی پر دکھائی گئی تھی۔ کہاں گیا وہ تیل اور کہاں گئی وہ حکومت پاکستان کی حکومت بنگلہ دیش سے جتنی توقعات لگائی ہوئی ہے وہ سب کی سب حماقت پر مبنی ہے، پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جیسا کہ فرمایا ہے کہ بنگلہ دیش ہمارا ایک بچھڑا ہوا بھائی ہے، بنگلہ دیش میں یا وہاں کے میڈیا میں اِس کا کوئی ردعمل دیکھنے میں نہ آیا ، اُنہیں پاکستان سے دوستی میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں اور وہ پاکستان سے ایک بچھڑا ہوا بھائی بن کر کاروبار کرنا چاہتے ہیں، بھارت کے ایجنٹس جن میں عوامی لیگ کے رہنما و کارکن بھی شامل ہیں وہاں کی سیاست میں پاکستان کی مداخلت کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں، اِسلئے جو خبریں بنگلہ دیش کے بارے میں آپ پاکستان کے اخبارات میں دیکھتے ہیں بنگلہ دیش میں اُسکا نام و نشان تک نہیں ہوتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here