”محنت کش شہری’

0
12
رعنا کوثر
رعنا کوثر

”محنت کش شہری”

نیویارک اور امریکہ کے بے شمار سٹیٹ ایسی ہیں کے ان میں موسم سرما بہت شدت سے آتا ہے اور ایسے ہی یہاں کا وہ طبقہ جو کے صرف بنیادی سہولتیں تو حاصل کرلیتا ہے مگر پوری طرح سے ان سہولتوں کو استعمال کرنے کے باوجود مہنگائی کی وجہ سے غربت کے دائرے میں آجاتا ہے جن کو گورنمنٹ کی طرف سے گھر مل جاتے ہیں وہ تو شاید سکول میں ہوں مگر وہ طبقہ جو کرایہ کے گھروں میں ہے بہت تھوڑی آمدنی ہے حالات کی وجہ سے نوکریاں چھوٹ گئی ہیں لڑکے کام نہیں کر رہے ہیں مائوں پر بوجھ بن گئے ہیں۔بوڑھی مائیں اپنی پرانی نوکریوں کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ سردی کے موسم میں نہ چاہتے ہوئے بھی گرم کپڑے پہن کر جوتے اور ہر طرح سے سردی کی تیاری کرکے گھر سے باہر نکلتی ہیں ہر ایک کو پنشن نہیں ملتی ہے اس لئے بڑھاپے تک کام کرتے ہیں۔اولاد کا سہارا بھی نہیں ہوتا کے اکثر کی اولادیں بگڑ چکی ہوتی ہیں۔ یا گھر سے دور جاچکی ہوتی ہیں۔ایسے ہی سرد سے سرد موسم ہیں میں نے ان عورتوں کو باہر نکلتے دیکھا ہے کوئی ہلکے قدموں سے ٹرین سٹیشن کی طرف جارہی ہوتی ہے۔ کوئی لوگوں کے گھروں کے سامنے سے کچرے صاف کر رہی ہوتی ہے کہ کچھ پیسے مل جائیں گے۔ کوئی بوتلیں اور کین جمع کرکے دوکانوں پر پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ کے ان سے بھی پیسے مل جائیں گے۔ خاص طور سے موسم سرما اس طبقے کے لوگوں کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ گرم کپڑوں کی اور جوتوں کی سہولت انہیں حاصل ہوجاتی ہے کہیں سے مانگ لیا کئی نے خود دے دیا مگر باہر تو نکلنا ہے اپنا کام کرنا ہے کچھ لوگ تو مانگنے تک سے گریز نہیں کرتے کیونکہ بنیادی سہولتیں تو ہیں مگر کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے۔ محبت کے دو بول اپنی اولاد کے منہ سے ہی اچھے لگتے ہیں۔ مگر محبت دینے و الے یا تو گھر میں پڑے سو رہے ہوں گے۔ یا گھر میں ہوں گے ہی نہیں کہیں اور اپنی دنیا بسائے بیٹھے ہوں گے ایسے میں والدین جو پوری زندگی کما کر اب تھک چکے ہوتے ہیں اب بھی کام پر جارہے ہوتے ہیں۔ ان کو نہ صرف پیسے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ان کو صحت ایسی انشورنس کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ان کے صحت کے مسائل کو حل کرسکیں اور انہیں ڈاکٹر کی بھاری فیس نہ ادا کرنی پڑے۔ اسی لئے ہم کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کے ہم اگر امریکہ میں آگئے ہیں تو مسائل بچ گئے ہیں۔ یہاں پر بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ کچھ لوگ صرف گورنمنٹ سے پیسے وصول کر رہے ہیں ان کو کوئی پنشن نہیں ہے۔ اور یہ پیسے بڑھاپے کا سہارا نہیں ہیں۔ اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور پیسے اتنے نہیں دیئے جاتے۔ کوئی ہیلتھ انشورنس بھی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ70،80سال کی عمر تک کام کرتے رہتے ہیں کے اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ہمارے ملک میں ایک لڑکا ہی کافی ہوتا ہے والدین کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بچہ جوان ہوتا ہے اور لوگ خوشحال ہوجاتے ہیں۔ یہاں امریکہ میں جوان بیٹوں کے والدین ایسا خواب نہیں دیکھ سکتے یا تو ان کے اپنے اخراجات بہت ہوتے ہیں یا پھر اگر خراب صحبت کے عادی ہیں تو ماں باپ کے ہی سہارے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ موسم سرما کو دیکھتے ہی اور باہر کی دنیا میں عمر رسیدہ چند محنت کش بڑی عمر کے لوگوں کو دیکھ کر یہ سارے خیالات ذہن میں آئے کے یہ لوگ اپنے کو بوڑھے بھی نہیں خیال کرتے اور کام کرتے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here