اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ وطن عزیز میں سیاسی ہوائوں کا رخ بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔گزشتہ ہفتے اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے ساتھ ہی جو حالات سامنے آئے ہیں وہ اس امر کی غمازی کرتے نظر آتے ہیں کہ تحریک اعتماد کامیاب ہو یا ناکام ہر دو صورتوں میں سیاسی منظر نامہ ملک کیلئے خوش کن نہیں ہوسکتا۔آثار تو یہ ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پر پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل یا دوران اجلاس ہی حالات تصادم کی طرف چلے جائیں، نتیجتاً سیاسی بساط پر دھند ہوجائے اور سیاسی مہروں کو بدلتی ہوئی چالوں کے مطابق چلایا جائے۔اس متوقع صورتحال کا احساس نہ صرف حکومتی اشرافیہ اور اپوزیشن کو ہوگیا ہے بلکہ ان فریقین کو بھی ہوگیا ہے جو اشارہ ابرو پر اپنی سیاسی سمت اور الحاق وطرفداری کا تعین کرتے ہیں۔سادہ الفاظ میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فریقین ہوا کے اس رُخ پر چلتے ہیں جس کو مقتدر قوتیں متعین کر دیتی ہیں۔
٭ہماری اس سوچ کو گزشتہ پورے ہفتے میں حکومتی حلقوں بشمول وزیراعظم، اتحادیوں اور اپوزیشن کے رویوں، بیانات، ملاقاتوں اور مخالفین کے اوپر گند اچھالنے، الزام تراشی نیز بین السطور میں فیصلہ سازوں پر لفاظی وتحفظات سے تقویت ملتی ہے۔تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے ایک جانب اتحادیوں کو منانے کی حکومتی کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن کے اقدامات کی نفی کرنے کے لئے آئینی وقانونی تاویلیں دے کر یہ واضح کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے۔اسی پر بس نہیں ہے اپنی قوت اور عوامی مقبولیت کے اظہار کے لئے عوامی رابطوں، جلسوں اور پارلیمانی اجلاس کے موقعہ پر ریڈزون میں مظاہرہ کرنے کا اعلان بھی حکومتی کاوشوں میں شامل ہے۔دوسری جانب اپوزیشن بھی ترکی بہ ترکی ان اقدامات کا توڑ کرنے اور حکومت ختم کرنے پر اقدام کرنے کے لئے تیار نظر آتی ہے۔حکومت ڈی چوک پر10لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کا اعلان کرتی ہے تو مخالفین دوگنا تعداد میں لوگ لانے کی دھمکی دیتے ہیں۔یہی نہیں ہر دو جانب سے ایک دوسرے کے لئے مغلظات، دھونس، دھمکیوں اور خاندانوں، مرحومین کے حوالے سے ہرزہ سرائی اس حقیقت کو ظاہر کررہی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین دشمنی کی بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لئے کلنک کا ٹیکہ ہی ہوتا ہے۔
٭سیاست میں کیچڑ اچھالنے اور مخالفین کو ہدف بنانے کا یہ رحجان کچھ نیا نہیں، مختلف ادوار میں اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال ہوتے رہے ہیں۔مادر ملت کے خلاف ایوب دور کے ایک وزیر کا کتیا کے گلے میں فاطمہ جناح کے نام کاپٹہ ڈال کر سڑکوں پر گھسیٹنا ایوب خان کے خلاف ایوب کتا ہائے ہائے اور بھٹو کے خلاف گنجے کے سر پر ہل چلے گا سمیت بینظیر کے خلاف ہیلی کاپٹر سے فحش پوسٹر گرانے کا گند تاریخ کا حصہ ہیں تاہم آج کے طاقتور اور وسیع میڈیا وسوشل میڈیا کے ہنگام میں اس قسم کے بیانیئے اور دعوے و الزامات جلتی پہ تیل ڈالتے کے مترادف ہیں یہی نہیں گندی او زہریلی تقاریر بیانات اور ٹوئیٹس کے ہماری نوجوان نسل اور مستقبل کی لیڈر شپ پر اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔
٭اس وقت دونوں جانب سے جس طرح کے بیانیئے چینلجز اور تضحیکی سلسلے جاری ہیں وہ نہ صرف ماحول کو براگندہ کر رہے ہیں بلکہ مقابلہ بازی کے دعوے اور اپنی برتری کے لئے ہر طریقہ بروئے کار لانے کا عزم خصوصاً تحریک کے حوالے سے اجلاس کے موقع اپنی قوت دکھانے کا ارادہ وعمل اس امر کی نشاندہی ہے کہ ہماری حکومت اور اپوزیشن ملک کو ایسے بحران کی جانب لے جارہے ہیں جو جمہوری عمل کے خاتمے اور سیاسی بحران پر منتج ہو۔سب سے بڑھ کر ایک ہی دن پر دو فریقین کا اپنی قوت کے اظہار کے لئے ریڈ زون میں مقابل آنا کسی بھی بڑے حادثے اور نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔عامر کیانی کا دعویٰ کہ تحریک عدم اعتماد کے لئے آنے والے کو لاکھوں کے مجمع سے گزر کر آنا اور ووٹ ڈال کر اسی مجمع سے گزر کر واپس جانا ہوگا نہ صرف کھلی تھریٹ ہے بلکہ خونریزی اور خانہ جنگی کا خوفناک سبب بھی بن سکتا ہے اگر خدانخواستہ ایسی صورتحال ہوتی ہے تو جان ومال کا کیس قدر نقصان ہوگا، ہمارے ارباب سیاست بخوبی جانتے ہیں لیکن اپنے مفاد کے لئے انہیں اس کی فکر اس لئے نہیں کہ ان نقصانات کا ہدف معصوم سپورٹرز ہوں گے جو اپنے رہنمائوں کی تحریک پر وہاں پہنچیں گے یا املاک کو نقصان پہنچا تو وہ مملکت کا نقصان ہوگا۔جن گھرانوں کے چراغ، مائوں کے بیٹے، بہنوں کے بھائی بیویوں کے سروں کے تاج اس آفت کا شکار ہوں گے ان پر کیا قیامت گزرے گی ہمارے ان خود غرض رہنمائوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں انہیں تو اپنا اُلو سیدھا کرنا ہے۔البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ریاستی ادارے ایسی صورتحال کو وقوع پذیر ہونے دیں گے؟۔
٭قطع نظر اس کے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی یا نہیں، اس وقت سیاسی پہچان اور بحران انتہائی عروج پر ہے۔کپتان کے اتحادی ق لیگ، ایم کیو ایم، باپ اور جی ڈی اے کسی بھی فیصلے کے لئے آپس میں یکجا ہوگئے ہیں۔اور کسی متعینہ فیصلے کے لئے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں جن کے ایماء پران کی سیاست کا دارومدار ہے۔ادھر اپوزیشن اتحادیوں، ترین گروپ وعلیم خان کو بنیاد بنا کر نیز پی ٹی آئی کے پارلیمنٹرینز کے انحراف کے دعوئوں پر اپنے نمبرز گیم کی تکمیل کا اظہار کر رہی ہے۔کون جیتا کون ہارا کا فیصلہ تو اجلاس کے انعقاد سے ہی مشروط ہے لیکن کیا موجودہ سیاسی کشیدگی، قوت کے مظاہرے اور امن عامہ کے خدشے کے پیش نظر اجلاس کا انعقاد28مارچ کو ممکن نظر آتا ہے یا پھر کوئی انہونی ہونی ہے۔
٭23مارچ کویوم پاکستان کی پریڈ ہونی ہے، کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کا اجلاس بھی ہونے کو ہے جبکہ پی ڈی ایم نے اسی دن لانگ مارچ اور اجلاس تک دھرنے کا اعلان کردیا ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ ان حالات میں امن وامان اور سلامتی کے ادارے خاموش تماشائی بنے رہیں،ہرگز نہیں تو پھر صورتحال کس نہج پر پہنچے گی سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔تاہم ہمارے اس خدشے کا جواب کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد اپوزیشن کے لانگ مارچ کی تاریخ کی تبدیلی کی صورت میں آگیا ہے۔ تاہم تصادم کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔ اگر بالفرض حالات قابو میں رہے اور اپوزیشن اپنے ارادوں میں کامیاب بھی ہوجائے تب بھی عمران خان کا کچھ بگڑتا ہوا نظر نہیں آتا کہ اپنے مزاج کے حوالے سے وہ اور زیادہ قوت سے آئے گا۔اور اپنی سیاسی مظلومیت و سیاسی شہادت کو بنیاد بنا کر اگلے انتخابات میں کامیابی کا راستہ بنائے گا جبکہ عمران مخالف ایجنڈے پر متحد اپوزیشن اپنے جماعتی ایجنڈے اور قیادت وحکمرانی کے چکر میں باہم متحارب اور دست وگریبان نظر آئے گی۔ہمیں تو مستقبل کا نقشہ یہی نظر آتا ہے کہ اقتدار کیلئے جنگ وجدل کہیں جمہوریت کا بستر لپیٹنے کا سبب نہ بن جائے۔
٭٭٭