واشنگٹن(پاکستان نیوز) اخبار وال سٹریٹ جرنل نے اپنی تہلکہ خیز رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ بھر میں 130وفاقی ججوں نے تقریباً700 ایسے مقدمات سن کر امریکی قانون اور عدالتی اخلاقیات کی خلاف ورزی کی جس میں وہ کمپنیاں شامل ہیں جن میں وہ یا ان کے خاندان کے افراد سٹاک کے مالک تھے۔ بعض ججوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے تین سو سے زائد مقدمات میں غلط فیصلے کئے اور یہ کیس دوبارہ سنے جا سکتے ہیں۔ فیڈرل ڈسٹرکٹ ججوں میں سے تقریباً دو تہائی نے انفرادی سٹاک کا مالک ہونے کا اقرار کیا جبکہ باقی کیسوں میں ججوں کے خاندان یا رشتہ دار کے ذاتی مفادات شامل تھے۔نیویارک کے ایک جج ایڈگارڈوراموس نے ایکسن موبل کارپوریشن یونٹ اور ٹی آی جی انشورنس کمپنی کے مابین آلودگی کے ایک مقدمہ میں جانبداریاختیار کی اور ایکسن موبل کے حق میں فیصلہ دیا۔ کولوراڈو میں جج لیوس بابکاک نے کامکاسٹ کارپوریشن کے ذیلی ادارے سے متعلق کیس کو سنا اور اس کے حق میں فیصلہ دیا، کیس میں وہ اور ان کے خاندان کے کچھ لوگ پندرہ ہزار سے پچاس ہزار ڈالر کا مکاسٹ سٹاک کے مالک تھے۔ اوہائیو کی اپیل کورٹ میں جج جولیا سمتھ گبنس نے ایک کیس میں ٹریڈ مارکے تنازع میں فورڈ موٹر کمپنی کی حمایت کی جبکہ ان کے شوہر آٹو بنانے والی کمپنی میں سٹاک کے مالک تھے۔ امریکہ کے اقتصادی اور قانونی ماہرین نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا دنیا کی سپر پاور کے جج بھی بک چکے اور کرپشن میں ملوث ان ججوں نے قانون و انصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے امریکی نظام عدل پر سوالیہ نشان لگا دیئے۔