ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں وطن عزیز کی اہم سیاسی، حکومتی و ریاستی اشرافیہ اور فیصلہ سازوں کے ضد اور انا کے رویوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ معاملات کو سیاسی و معاشرتی منافرت و عدم استحکام کا ذریعہ قرار دیا تھا جس میں بڑوں کی لڑائی کا منفی اثر صرف اسٹیک ہولڈرز تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اثرات تمام طبقات کو اپنے دائرے میں جکڑ لیتے ہیں۔ نتیجہ ایک ایسے معاشرے کی صورت میں سامنے آتا ہے جس میں خیر، انسانیت اور بھلائی کے برعکس منافرت، کینہ پروری اور جھنجلاہٹ، قوموں کا شیوہ بن جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستانی معاشرے میں بھی سرایت کر گئی ہے، قوم سیاسی حوالوں سے تو دو حصوں میں بُری طرح منقسم ہو چکی ہے اور اس کے مظاہر سیاسی و ملکی حالات کے تناظر میں واضح ہیں۔ خیر اور مثبت جذبات کی جگہ تضحیک، بدگمانی اور نفرت کا سیلاب وطن کی حدوں سے نکل کر اب بیرونی معاملات، واقعات کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور اس پروپیگنڈے میں سوشل میڈیا نہایت گھنائونا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ ہماری اس تمہید کا سبب لاس اینجلس میں 7 جنوری سے لگنے والی قیامت خیز آگ سے ہونیوالی اندوہناک تباہی کے حوالے سے ہے جس پر پاکستانی سوشل میڈیا لاف گزاف کر رہا ہے اور اس واقعہ کو غزہ میں اسرائیلی مظالم و تباہ کاری کا نتیجہ قرار دے کر عذاب الٰہی گردان رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ رحمت اللعالمین کے پیرو کار قدرتی آفت اور جانوں و مال کے نقصان پر اظہار مسرت کر رہے ہیں اور اس واقعہ کو غزہ و فلسطین میں ہونیوالی اسرائیلی تباہ کاریوں سے جوڑ رہے ہیں۔ اس سانحہ میں جو افراد اپنی جانوں اور وسائل و سہولیات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہ محض یہودی یا اسرائیل کے طرفدار تو نہیں تھے، دیگر اقوام، مذاہب و عقائد کے لوگ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سب امریکی ہیں اور پاکستان سمیت مختلف ممالک سے اپنے بہتر مستقبل کی خاطر زندگی کی دوڑ میں مصروف عمل ہیں۔ پاکستانی میڈیا، سوشل میڈیا کا یہ مخالفانہ و منافقانہ ابلاغ ہمارے ساتھ کسی بھی امریکی شہری و مکین کیلئے قابل افسوس و مذمت کے سواء کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر و غیرہ پر نفرت انگیز مواد سوائے پاکستانی معاشرے اور پاکستان کیخلاف نفرت، تحقیر اور بدگمانی کچھ نہیں دیگا۔ امریکہ ساری دنیا کیلئے لینڈ آف اپرچونٹی کا رجہ رکھتا ہے، جو پاکستانی خصوصاً سوشل میڈیا بلاگر، اینکر اپنے وطن میں مطعون ہوتے ہیں یا کچھ نہیں کر سکتے امریکہ پہنچنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر اجازت مل جائے تو آدھے سے زیادہ پاکستانی امریکی سکونت اور غلامی کو اپنانے کو اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں۔ ہم نے ایسے کیسز بھی دیکھے ہیں کہ امریکہ آنے کیلئے ویزہ کے حصول میں 50 لاکھ میں سودا کیا گیا ہے۔
امریکہ کیخلاف نفرت اگلنے اور غزہ کی ہمدردی میں لاس اینجلس کی لگنے والی آگ کو عذاب و قہر کہنے والوں کو یہ خبر نہیں کہ غزہ، فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کیخلاف امریکہ بھر میں خصوصاً کیلیفورنیا (لاس اینجلس) میں عوامی و ریاستی سطحوں پر سب سے زیادہ احتجاج، قراردادیں اور فنڈریزر و امداد ہوتے رہے ہیں جن میں قومیت، مذہب و عقائد کی کوئی تخصیص نہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی بھی احتجاج کی غیر اعلانیہ پابندی ہے، جماعت اسلامی کے سینیٹر کی گرفتاری اس کی واضح مثال ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں پاکستان میں صحت، تعلیم و فلاحی خدمت میں سرگرم اداروں و تنظیموں کی فنڈریزنگ کا سب سے اہم محور امریکہ ہے، پاکستان میں جمہوریت کے قیام اور عوامی مینڈیٹ کے نفاذ کی جدوجہد میں امریکی ڈیسفورا سب سے بڑھ کر متحرک ہے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی معاشی صحت و خوشحالی کیلئے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی مدد اور رضا مندی کا دار و مدار امریکہ سے مشروط ہے، ان تمام حقائق و صداقتوں کے باوجود پاکستان میں بیٹھے ہوئے سوشل میڈیا کے لونڈے لپاڑوں کی یہ حرکات کیا پاکستان کے حق میں ہیں کہ پاکستان دشمنی کے زمرے میں آتی ہیں۔
ہمارا اندازہ بلکہ یقین تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ضد، انا، نفاق اور منافرت کا زہر محض قائدین تک ہی محدود نہیں پوری قوم، سارہ معاشرہ ہی اس گند میں ڈھل چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے باون اسلامی ممالک میں کیا پاکستان ہی واحد اسلامی مملکت ہے جو اسرائیلی مظالم کی بناء پر امریکہ کو ہدف ملامت اور بددعائوں کا نشانہ بنائے، سعودی عرب، ترکی، عرب امارات و دیگر ممالک کے پارٹ پر ایسی کوئی مثال تو نظر آتی نہیں تو آخر پاکستانیوں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اُٹھتے ہیں؟ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری قوم بلکہ معاشرے کی سوچ بلکہ روح میں تخریب رچ بس گئی ہے اور نفرت، ضد اور تنقیص کے سواء اس معاشرے میں کچھ بھی نہیں۔ یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔
٭٭٭٭