اسلامی اقدار!!!

0
10
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آجکل مصروفیات انتہا کو پہنچ چکی ہیں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ مجھے مقالہ بھیجنا یاد نہ رہا وگرنہ ذمہ داری سے بروقت بھیج دیا کرتا ہوں ،قریبی عزیز کی بیٹی جو اپنے گھر جارہی ہے الحمد للہ اسکے نکاح کی تقریب میں شرکت کیلئے وطن عزیز آنا ہوا ،اس وقت مجھے بہت کم وقت ملتا ہے کہ عالمی خبروں پر نظر رکھوں اور اس پر کچھ تبصرہ کرسکوں البتہ وطن عزیز میں ایک خطے میں لگی آگ پر جو تبصرے پڑھے ان کو پڑھ کر مایوسی ہوئی اور ایسا لگا شاید انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے جہاں اس گراں فروشی کے دور میں وطن عزیز میں رہتے ہوئے فضول رسم ورواج دیکھ کر لڑکی کے والدین کو بھاری معاشی بوجھ تلے دبتے دیکھا، اس سے رنج و ملال رہا وہیں ایسے جہالت و نفرت پر مبنی تبصرے دیکھے کہ حیران رہ گیا کہ ہم بحیثیت مسلمان کہاں جارہے ہیں ؟
شادی جیسی اہم ذمہ داری جس کو آسان ہونا چاہئے مغرب نے اس سادگی کو اپنایا اور شادی آسان ترین کرڈالی اور طلاق مشکل ترین جبکہ ہمارے نظام میں ان دونوں کا اُلٹ دیکھا،جہیز ، مہندی کی رسوم ، نکاح ، ولیمے کی رسومات ، چوتھی کی رسوم چار مرتبہ تقریبات اس کے اخراجات وضع در وضع کے کھانے جن میں کم از کم تیس سے چالیس فیصد کھانا ضائع ہوا!میں دیکھ کر دل ہی دل میں اللہ پاک سے توبہ کرتا رہا یا اللہ ہم کو معاف فرما اس اسراف کا نتیجہ ہے جو گھروں سے برکت ختم ہوکر رہ گئی ہے اس رزق کی ناقدری ہے جو ہم ایسی مشکلات میں گرفتار ہیں جن کا تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا ،ہر شخص معاشی تنگی کا رونا رو رہا ہے جبکہ انکی خواتین زرق برق لباس زیب تن کیے بیوٹی پارلر میں چند گھنٹوں کا میک آپ کرانے کیلئے پینتالیس ہزار خرچ کرچکی ہیں یہ ایسے علاقے کی بات کررہا ہوں جو پوش ایریا بھی نہیں ہے جی ملیر کراچی میں معروف سیلون کا ریٹ ہے جو سب سے سستی سروس خواتین نے کراء وہ ساڑھے سات ہزار جبکہ یہاں عام تنخواہ ہے چالیس سے پچاس کے درمیان ہے تو بھاء بہنوں آپ زرا خود سوچیں شادیوں کی تقریبات میں ان فضول خرچیوں میں کون آگے ہے مغربی اقوام یا ہم لوگ جو ایسے شوھدے باز بن چکے ہیں جن کو دیکھ کر مغربی اقوام سمجھیں یہ کو کروڑ پتی لوگ ہیں جنہیں محنت سے کماء روزی کے ضیاں پر کوء افسوس نہیں ہوتا !میرے ہم وطنوں یہی حال اگر ہمارا رہا تو بیٹیوں کا رخصت کرنا ماں باپ کیلئے کتنا مشکل ترین ہوجائیگا اس کا اندازہ آپ نہیں لگاسکتے جو حالات میں دیکھ رہا ہوں اس پر سوائے کف افسوس ملنے کچھ نہیں ہمارے علما کو ان فضول خرچیوں فالتو کی رسومات جن کا نکاح سے کوء تعلق نہیں روکنے کیلئے دروس کا اہتمام کرنا چاہیئے اور بحثیت مسلمان ہم کو بھی نکاح سادگی سے کرنے اور تقریبات میں رزق کے ضیاں سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے خواتین کے بنائو سنگھار کیلئے گھر کی کسی بچی کو تربیت دیکر خواتیں اس سے گھر میں تیار ہوں اس سے یقینی بچت ہوگی ۔حقیقتا دیکھا جائے تو ہماری تو زندگیاں گزر گئیں دیار غیر میں 5 ڈالر فضول خرچ کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ تو پھر اتنا پیسہ کہ 50لاکھ ہی اڑا دو دکھاوے پر،
آتا کیسے ہے اتنا پیسہ؟
سیالکوٹ میں اوورسیز پاکستانی کی شادی پر بھائیوں نے 50 لاکھ روپے سے زائد مالیت ملکی و غیر ملکی نوٹوں کی برسات کردی، کرنسی لٹانے کے لئے کنٹینر کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ تحصیل سمبڑیال کے رہائشی عمران کی شادی میں نوٹوں کی برسات کی گئی۔ بارات گاوں بکھڑے والی سے نکلی تو دولہے کے بھائیوں اور دوستوں نے راستے میں نوٹ برسانے شروع کر دیے، بارات شادی ہال پہنچنے پر کنٹینر پر چڑھ کر نوٹ برسائے گئے۔ پیسے لوٹنے کے لیے دور دراز سے نوجوان ٹولیوں کی شکل میں امڈ آئے، اٹلی سے آئے دولہا عمران کے اسپین اور کینیڈا سے آئے بھائیوں کے مطابق شادی میں 50 لاکھ سے زائد ملکی و غیر ملکی کرنسی لٹائی گئی۔(ایک خبر)
انسان بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک اپنی پوری زندگی خود کو لوگوں کی نظر میں باوقار اور قابل عزت بنانے کی کوشش و فکر میں مگن رہتا ہے، لیکن دنیا اس سے کبھی خوش نہیں ہوتی۔ اگر سادہ لوح ہو تو دنیا مذاق اڑاتی ہے۔ خرچ کرے تو فضول خرچ اور نا کرے تو کنجوس ،اگر عقلمند ہو تو حسد کرتی ہے۔ الگ تھلگ رہے تو متکبر اور اگر ہر ایک سے گھل مل رہے تو خوشامدی گردانا جاتا ہے۔ دنیا کو خوش رکھنے کی اسی جدوجہد میں اس کی زندگی تمام ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن آتا ہے، وہ چپکے سے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ جاتے ہوئے اس کو یہ سوچنے کا موقع بھی نہیں ملتا کہ یہ سارا کیا تماشا تھا اور وہ جاتے ہوئے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ
زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر،
کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں۔
جہاں اسلامی اقدار مجھے خوشی کی تقریب میں کہیں نظر نہ آسکیں وہیں کیلی فورنیا میں لگنے والی آگ پر موجود تبصرے دیکھ کر دل دکھ رہا ہے انسانیت کہاں کھو گء ہے اس کو ڈھونڈنا پڑیگا اور مسلمانوں کو بھی شدید تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے کیونکہ عظیم ملک و قوم کا مولوی مجھے کہیں چندہ اسکیم چلاتا ہوا نہ ملا نہ اس آگ کے نام پر روٹی کپڑے مکان کیلئے مانگنے والے کہیں نظر آئے !!؟؟ بس یہی انکی ترقی کا راز ہے نہ وہاں کوء فوٹو سیشن کراتا ہے نہ تصویریں نمائشوں کا اہتمام ہوتا ہے ایک ہاتھ دے دوسرے کو خبر نہیں ہوتی اور ہم جو شوھدے باز بن چکے ہیں انکو معلوم نہیں وہاں نظام اسلامی آتا جارہا ہے بس کلمہ پڑھ لیں اس کی کمی ہے عملی طور پر اچھائیوں میں بھی وہ ہم سے کہیں آگے ہیں اس بات پر گہراء سے غور فرمائیے گا ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here