محترم قارئین آپ سب کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج آپ کی خدمت میں ایک ایسی فکری بحث کی جائیگی جو منطق وفلسفہ کے باب سے درست ہوگی کیونکہ موضوع کی مناسبت سے دیکھا جائے تو کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بدقسمت ہیں اور کامیاب نہیں ہوپائیں گے جبکہ وہ اپنا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں اور احساس کمتری یا احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ان سے درخواست ہے درج ذیل مقالہ غور سے پڑھ لیں تو ان کو ان شاء اللہ آسانی ہوگی یہ میری تحریر نہیں ہے اور حوالہ بھی نہیں کس کی ہے لیکن باتیں کارآمد اور متاثر کن ہیں ۔ کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔ کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کمپنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔ بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اورروزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔ کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔ کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔ اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکلچکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔ نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔ اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کونکتنا بوجھ اٹھا سکتا۔ کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔ ہر حال میں خوش رہیں سلامت رہیں اور شکر گزار ہوں۔ اب آپ نے دیکھا تمام تقابل و موازنہ فرمانے کے بعد کہ کس طرح ایک انسان اپنے ٹائم فیز میں کامیاب ہوتا ہے ۔ میری ایک اتنی سی گزارش ہے کہ کبھی بھی کسی بھی حالت میں ناامید نہ ہوں اور مایوسی کو پاس نہ پھٹکنے دیں اچھی امید رکھیںکیونکہ آپ کا دماغ اتنا طاقتور ہے کہ اگر آپ نے خود کو ناکام تصور کانا شروع کردیا تو یہ دماغ آپ کو ناکام بناکر ہی دم لے گا اپنی ناکامی کے اسباب تلاش کرکے ان کو ایک ایک کرکے دور کریں اور ایک کامیاب زندگی گزاریں بحیثیت مسلمان بھی ہم کو ناامید ومایوس ہونا نہیں چاہیے اور رب کریم کی عطا پر صابر و شاکر ہوکر کامیابی اور مواقع کیلئے سعی فرمائیں آپ کامیابی کو پالیں گے بس آج کی بحث و مقالہ کا یہی مقصد تھا کرونا کے بعد کی مایوسی اور انتشار دماغی سے لوگوں کو سکون حاصل ہو اور وہ نئے عزم سے کامیابیاور مواقع کی تلاش کرکے مطمئن ہوں میری دعا ہے اللہ پاک آپ کو ایک کامیاب انسان بنائے جو دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہوآمین۔ ملتے ہیں اگلے ہفتے آپ سب کو پیشگی بکرا عید ، عید قرباں ، عید الاضحیٰ بہت بہت مبارک ہو ۔
٭٭٭