ڈالر ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر

0
114

کراچی (پاکستان نیوز) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا، بنیادی شرح سود میں 0.25 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد شرح سود 7.25فیصد ہوگئی،اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا ہے کہ معاشی بحالی کی رفتار توقع سے زیادہ بڑھ گئی ہے، اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں کے ساتھ ہی ملکی طلب کی بھرپور بحالی کی وجہ سے درآمدات اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہورہا ہے، مہنگی درآمدات اور اس کی طلب میں اضافے کے باعث مالی سال میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے، شرح سود 25بیسز پوائنٹس اضافے کے بعد 7.25فیصد کر دی گئی،مرکزی بینک نے کہا کہ رواں مال سال جولائی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 80کروڑ ڈالر جب کہ اگست میں ایک ارب 50کروڑ ڈالر ہوگیا، ترسیلات زر اگرچہ مستحکم رہیں، رواں مالی سال جولائی اور اگست کے دوران اس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 10.4فیصد اضافہ ہوا تاہم درآمدات نے انہیں بے اثر کردیا،اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں برس جون میں مہنگائی کی شرح کم ہوکر 9.7فیصد جب کہ جولائی اور اگست میں 8.4فیصد رہی، مستقبل میں مہنگائی کا انحصار ایندھن، بجلی اور اجناس کی عالمی قیمتوں اور ان کی ملکی طلب پر ہوگا۔ زری پالیسی کمیٹی ملک میں مہنگائی، مالی استحکام اور ترقی کی شرح کو متاثر کرنے والے حالات کی مسلسل نگرانی کرتی رہے گی۔یم پی سی نے نوٹ کیا کہ پچھلے چند ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے جاری کھاتے کے خسارے میں ردوبدل کا بوجھ بنیادی طور پر شرح مبادلہ پر پڑا ہے اور یہ مناسب ہوگا کہ ردوبدل کے دیگر طریقے بشمول شرح سود بھی اپنا موزوں کردار ادا کریں۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ زری پالیسی کا موقف ابھی تک نمو کی معاونت کے لیے موزوں ہے اور حقیقی شرح سود مستقبل بین بنیادوں پر منفی رہی ہے۔ آگے نظر رکھتے ہوئے ایم پی سی کو توقع ہے کہ غیر متوقع واقعات کی عدم موجودگی میں قلیل مدت میں زری پالیسی گنجائشی رہے گی، اور ممکنہ طور پر مالیاتی اعانت بتدریج سکڑے گی تا کہ وقت گزرنے کے ساتھ معتدل مثبت حقیقی شرح سود کو حاصل کیا جا سکے۔ اس مالیاتی اعانت میں مزید ممکنہ کمی کی رفتار کو دیگر عوامل کے علاوہ طلب میں نمو کی مسلسل مضبوطی اور مالیاتی پالیسی کے موقف کے بارے میں نئی معلومات سے تقویت ملے گی۔ توقع ہے کہ زراعت میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی کی تلافی چاول، مکئی اور گنے کے زیر کاشت رقبے میں اضافے سے ہو جائے گی۔ ان رجحانات کی بنیاد پر امید ہے کہ افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتِ حال کے اثرات کے لحاظ سے موجود انتہائی غیر یقینی کیفیت سے قطع نظر مالی سال22 میں نمو4تا5فیصد پیش گوئی کی بالائی حد میں رہے گی روپے کی قدر ایم پی سی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے 4.1 فیصد گری۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ حال میں دوسری بہت سی کرنسیوں کی قدر بھی گری ہے کیونکہ فیڈرل ریزرو کی طرف سے تخفیف کی توقعات سامنے آئی ہیں۔زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ شرحِ مبادلہ کے مارکیٹ پر مبنی لچکدار نظام نے جون 2019 میں اپنی آمد کے بعد سے اب تک عمدہ کارکردگی دکھائی ہے اور اس عرصے میں کووڈ کا دھچکا بھی شامل ہے۔ اس نظام نے جاری کھاتے میں مثبت تبدیلی کو ممکن بنایا ہے اور بیرونی دباو کے باوجود زرِ مبادلہ کے مجموعی اور خالص ذخائر میں انتہائی اہم اضافے کے لیے یہ معاون رہا ہے۔ اس نظام کے تحت اسٹیٹ بینک شرحِ مبادلہ میں کسی ملفوف رجحان کو روکتا نہیں ہے، اور وہ مداخلت اگر کرتا بھی ہے تو مارکیٹ کی بدنظمی کی صورت حال کو درست کرنے کی حد تک کرتا ہے۔ اس نظام کے آغاز سے اب تک روپے کی حرکت دونوں سمتوں میں منظم انداز میں ہوتی رہی ہے، اور اس کی قدر اب تک صرف 4.8فیصد گری ہے، جو کہ اسی عرصے کے دوران کئی دوسری ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کی کرنسیوں کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ روپے کو جب سے فلوٹ کیا گیا ہے، اسٹیٹ بینک کے مجموعی زرِ مبادلہ ذخائر تقریبا تین گنا بڑھ کر ریکارڈ 20 ارب ڈالر ہو چکے ہیں، جبکہ آخر جون 2019 سے آخر اگست 2021 تک خالص بین الاقوامی ذخائر میں تقریبا 16 ارب ڈالر اضافہ ہو چکا ہے۔۔ جون میں مہنگائی 9.7 فیصد (سال بسال)سے کم ہو کر جولائی اور اگست دونوں میں 8.4 فیصد رہ گئی۔ سازگار اساسی اثرات کے علاوہ، یہ کمی پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی اور پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں کمی کی وجہ سے توانائی کی سرکاری قیمتوں میں مسلسل کمی کی عکاسی کرتی ہے۔ اگست میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں قوزی (core)مہنگائی میں کمی آئی۔ تاہم جولائی میں 1.3 فیصد اور اگست میں 0.6 فیصد ماہ بہ ماہ اضافے کے ساتھ قیمتوں کی رفتار نسبتاً بلند ہے۔ مزید برآں، مضبوط بحالی کی وجہ سے گھرانوں اور کاروباری اداروں دونوں کی مہنگائی کی توقعات بڑھی ہیں اور اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مستقبل میں مہنگائی کے منظرنامے کا انحصار زیادہ تر ملکی طلب اور سرکاری قیمتوں، بالخصوص ایندھن اور بجلی، کے ساتھ اجناس کی عالمی قیمتوں پر ہوگا۔ ایم پی سی مہنگائی، مالی استحکام اور نمو کے وسط مدتی امکانات کو متاثر کرنے والے حالات کی بغور نگرانی کرتی رہے گی اور اس کے مطابق کارروائی کے لیے تیار ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here