الحمد اللہ ذی الحجہ کا مبارک و مسعود مہینہ کا آغاز ہو چکا ہے، ہمارا یہ کالم جب آپ کے زیر مطالعہ ہوگا تو عید الاضحیٰ کی عبادات و مبارک ساعتوں کا نزول جاری و ساری ہوگا۔ ذی الحجہ کے اول دس ایام کو افضل الایام قرار دیا گیا ہے، 20 جولائی کو یوم عید الاضحیٰ ہوگا۔ اپنے تمام قارئین اور ساری اُمت مسلمہ کی خدمت میں ہماری اور ادارے کی جانب سے دلی مبارکباد کیساتھ ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو اس مبارک موقعہ کی تمام تر مسرتوں سے فیضیاب فرمائے اور آپ کی عبادات و سنت ابراہیمی کی پیروی کو قبول فرمائے۔ آمین۔ گزشتہ ہفتے ہم نے افغانستان کے حوالے سے اور پاکستان پر اس کے اثرات و مابعد انخلاء چند معروضات پیش کی تھیں۔ متذکرہ کالم میں افغانستان کی روز بروز ڈویلپ ہوتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کو درپیش متوقع حالات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ایسے اقدامات کا اظہار کیا تھا جو افغانستان میں بدلتی ہوئی سچویشن کے باعث پاکستان پر اس کے اثرات کا تدارک ثابت ہو سکیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس حوالے سے ایک جانب عسکری قیادت کے ترجمان نے افغانستان سے ملحقہ 2611 کلو میٹر سرحد کے تحفظ اور متوقع مہاجرین کی آمد کے حوالے سے تدارک پر بھرپور اقدامات کا اظہار کیا وزیراعظم نے بالخصوص بلوچستان میں افغانستان و بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث بلوچ قوم پرستوں کو قومی دھارے میں لا کر بھارتی را اور افغان NDS کی شیطانی سرگرمیوں کی سرکوبی کرنے اور ان عناصر کے ملک بالخصوص بلوچستان کی ترقیاتی سرگرمیوں میں مؤثر کردار ادا کرنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ افغانستان کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، بقول شیخ رشید اب یہ محض افغانستان یا پاکستان میں قیام امن اور تحفظ کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے خطہ کیلئے ہی اہم ہو چکے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان محاذ آرائی میں طالبان نے اپنی پوزیشن انتہائی مستحکم کر لی ہے جبکہ افغان حکومت محض کابل تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان کے 85 فیصد حصہ کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ افغانستان کے وہ علاقے جہاں ہزارہ، تاجک اور اُزبک مؤثر اثرات کے حامل تھے، اب وہ بھی طالبان کے زیر اثر آچکے ہیں، بیشتر جنگجو طالبان کیساتھ شامل ہو چکے ہیں یا ہتھیار ڈال کر ایران، تاجکستان جا چکے ہیں۔ ادھر طالبان کے ماسکو میں موجود نمائندے کے مطابق قندھار میں قائم بھارتی قونصل خانے پر بھی طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔ بھارت جو این ڈی ایس سے مل کر اپنے قونصل خانوں سے پاکستان کیخلاف دہشتگردی اور سازشوں میں گزشتہ کئی عشروں سے مصروف تھا، دُم دبا کر ایسا بھاگا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ بھارت اپنے تمام سفارتی عملے اور سیکیورٹی افراد کو افغانستان سے موجودہ صورتحال کے باعث واپس لے جا رہا ہے ، اس وقت کیفیت یہ ہے کہ سارے بھارتی قونصلیٹ خالی ہوچکے ہیں اور بھارتی سفارت خانہ کسی بھی وقت خالی ہو جائیگا، موجودہ صورتحال کے باعث بھارت نے طالبان سے تعاون کیلئے ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی لیکن طالبان نے اُسے دھتا بتا دیا، سازشی بھارت اپنی منافقانہ حرکتوں سے باز نہیں آیا اور اپنے اہلکاروں کو واپس لے جانے والے دو C-17 میں بھاری ایمونیشن بھر کر اشرف غنی حکومت کیلئے بھجوایا ہے جس کی ویڈیو ساری دنیا میں وائرل ہوئی اور بھارت مزید ذلیل و رُسواء ہو گیا ہے۔
امریکی انتظامیہ کی خوشنودی اور مفادات کیلئے، پاکستان و چین سے دشمنی کرنے والے بھارت کو مسلسل ہزیمت ہی اُٹھانی پڑی ہے اور اب طالبان کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثر سے اُس (بھارت) کی سارے خطے میں لُٹیا ڈُوب رہی ہے۔ اوپر والے رب عظیم کی قدرت کے عجیب کھیل ہیں کہ دو سال قبل طاقتور امریکہ نے کہا تھا “US Welcomes India For Boosting Afghan Forces” آج کیفیت یہ ہے کہ یو ایس اور انڈیا افغان سچویشن پر متفکر نظر آتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اب سے 40 سال قبل امریکہ، طالبان اور پاکستان سوویت یونین (روس) کے افغانستان پر حملے کیخلاف یکجا تھے اور آج یو ایس کے انخلاء کے وقت طالبان راہنما ماسکو میں بیٹھ کر افغانستان کی موجودہ قیادت اور امریکہ کیخلاف اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ رہا بھارت تو چالیس سال قبل روس کی حمایت کر کے ذلیل ہوا تھا اور اب امریکہ کی حمایت اور افغانستان میں اپنی بدمعاشیوں اور سازشوں کی ناکامی پر دنیا بھر میں ذلت و رُسوائی سے دوچار ہے بلکہ اپنی ناکامی پر ماتم کناں ہے۔ اس تمام تر صورتحال پر ہمیں ایک محاوراتی مصرعہ یاد آرہا ہے ”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے” رنگ بدلنے میں پاکستان بھی پیچھے نہیں رہا۔ 1979ء کے افغانستان میں سوویت یونین و امریکی تنازعہ، بعد میں امریکہ کی افغانستان پر چڑھائی، ڈومور کے تقاضہ پر 20 برسوں کی صعوبتیں، قربانیاں، اور معاشی ابتری کے نتائج اور آج افغان امن عمل کی کامیاب سہولتکاری کے بعد موجودہ حالات میں غیر جانبداری کا واضح مؤقف بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کی تصویر ہے۔ لیکن پاکستان کا یہ رنگ بدلنا ملک و قوم اور خطے کے امن کے حوالے سے مثبت اقدام ہے۔ خطے میں چین، پاکستان، روس، ایران اور سینٹرل ایشیائی ریاستوں کا معاشی و ترقیاتی اتحاد خصوصاً CPEC کا قیام اور ون بیلٹ، ون روڈ کا راستہ عالمی معیشت میں اہم موڑ کا آنا ثابت ہو سکتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ سیچویشن میں پاکستان کا مؤقف ”ہم افغان امن عمل میں سہولتکار ہیں، ضامن نہیں، بالکل درست اور پاکستان کے حق میں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ افغان ایشو پر ساری سیاسی اشرافیہ اور ریاست ایک پیج پر ہیں لیکن دوسری جانب کشمیر کے ایشو اور دیگر سیاسی معاملات پر حکومتی و مخالف اشرافیہ میں چپقلشیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو بعض اہم معاشی، قومی و خارجی امور میں دُشواریوں کا سبب ہیں۔ 25 جولائی کو آزاد کشمیر میں ہونیوالے انتخابات میں حکومتی اور اپوزیشن رہنمائوں کے خطاب اور دوسرے فریق کو کشمیر کاز کا مخالف قرار دینے کا استدلال دینا نہ صرف پاکستان کے کشمیر کے حوالے سے مؤقف کی تکفیر ہے بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس وقت ہماری سیاسی اشرافیہ (حکومتی اور مخالف) اپنی سیاسی رقابتوں میں ایسے ایشوز پر سیاست کرنے سے گریز کریں جو عالمی سطح پر پاکستان کیلئے اہم ہیں اور ملک و قوم کے اتحاد و سالمیت کیلئے اجتماعیت کے متقاضی ہیں۔
٭٭٭