حجاب اگر اس لفظ کی خوبصورتی پر غور کیا جائے تو اس لفظ کے کئی معنی نکل آتے ہیں۔حجاب کا مطلب شرم وحیا سے بھی لیا جاتا ہے۔اور ایک جھجک ایک رکاوٹ اور پردے کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔جو بھی کچھ ہے حجاب ہمارے مذہب کا ایک حصہ ہے۔جو عورتوں کو ایک تحفظ ایک پاکیزگی اور عطا کرتا ہے۔آج سے پندرہ بیس سال پہلے امریکہ میں خالی خالی ہی لڑکیاں اور عورتیں حجاب لیے نظر آتی تھیں۔اس ضمن میں مجھے یاد ہے ایک نازک چھوٹی پیاری سی لڑکی ہوتی تھی نوشین جوکے نویں جماعت میں تھی کے اسے حجاب پہننے کا خیال آیا اس وقت اس کے جاننے والوں میں نہ تو کوئی حجاب لیتا تھا اور نہ ہی کوئی اسکا عادی تھا ہزار پریشانیوں کے باوجود اس لڑکی نے اپنا حجاب نہ چھوڑا آج وہ ماشاء اللہ ڈاکٹر نوشین کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔اور آج اس وقت کو یاد کرتی ہے جب وہ اپنے جاننے والوں میں اکیلی اس میدان میں اتری تھی۔اور اسے اکثر تنقید کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔اس کا کہنا ہے کے صحیح راستے پر چلنے والے باہمت ہوجاتے ہیں۔اور تنقیدی نظرہی مسکراتے چہرے پھبتی ہوئی باتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں۔اب تو اکثر وبیشتر ہر تقریب میں ہر عملے میں ہر شہر میں عورتیں اور حجاب پہننے نظر آتی ہیں۔یہ سکول کالج جانے والی لڑکیوں کی ہمت ہی ہے جو انہیں اس ماحول میں حجاب پہننے سے نہ روک سکی۔ماحول سے مطلب صرف آزادانہ ماحول ہی نہیں ہے۔بلکہ ستمبر گیارہ کے بع ماحول میں وہ تنائو ہے اس نے ان کے قدم نہ ڈگمگائے۔ان میں سے بیشتر لڑکیاں نہ تو کسی مولوی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔نہ ہی ان کے گھر والوں کا کوئی دبائو ہی تھا مگر یہ ان لڑکیوں کا اپنا فیصلہ ہے جسے وہ اپنائے ہوئے ہیں۔ان کی تین بیٹیوں میں سے ایک ہمیں حجاب میں نظر آئی معلوم کرتے پر پتہ چلا کے اس نے اپنے شوق سے یہ حجاب پہنا ہے۔ماشاء اللہ بہت ذہین بچی ہے۔CORNELL UNiVER SiTYمیں پڑھ رہی ہے میں نے والدہ سے پوچھا کے اس حجاب کے پیچھے آپ کا دبائو شامل ہے وہ بولیں میری بیٹی نے اپنی مرضی اور شوق سے اسے اپنایا ہے جب کے میں تو آج تک نہیں پہن سکی۔یہ مطمئن بچے ایک فیصلہ کرکے ہم صحیح ہیں پر عمل کرتے ہیں۔اور اب کسی کی تنقید کی وہ پرواہ نہیں کرتے اور زمانے کا مقابلہ کرتے ہیں۔یہ خود اعتمادی برساہ برس گزرنے کے باوجود اپنے دیس کے لوگوں میں نہ آئی۔ہم دوسروں کو دیکھتے ہی متنزلزل ہوکر اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے لگتے ہیں۔کاش ہمارے ملک نے ہمیں جھوٹی شان وشوکت والی زندگی گزارنے کی بجائے ایک ٹھوس باوقار پراعتماد ماحول دیا ہوتا۔تو ہم میں سے بیشتر لوگوں جب دل کی یہ آواز سنتے کے”میں صحیح ہوں تو اس کو دبانے کی کوشش نہ کرتے اسے جگمگاتی جھوٹی شامل کے پیچھے چھپانے کی کوشش نہ کرتے بلکہ اس پر دل کھول کر عمل کرتے اور مطمئن زندگی گزارتے کے جو پاکیزگی کے راستے کو اپناتے ہیں انہیں ہی دلوں کا اطمینان نصیب ہوتا۔اور یہ بھی نصیب کی بات ہے کے کون کس سرزمین پر پیدا ہو کر کیا حاصل کرتا ہے۔کچھ لوگ مسلمان سرزمین میں پیدا ہوئے۔اور کچھ اس کفرستان میں مگر بس کے نصیب ہی روشنی کبھی وہ وہ اسے پاتا ہی ہے۔چاہے کسی سرزمین پر ہو۔
٭٭٭