دلیپ کمار خوشیوں کا ایک دوسرا نام تھا!!!

0
485
حیدر علی
حیدر علی

دلیپ کمار ایک عہد کے ترجمان تھے.پردہ سیمیں پر اُن کا جلوہ افروز ہونا برصغیر ہندوپاک کی معاشی، سماجی اور تاریخی پس منظر کی عکاسی کرتا تھا، اُن کی اداکاری کا دور جب اپنے زوال کو پہنچا تو برصغیر میں ایک نئے دور کا نزول ہوا، دلیپ کمار کی جگہ شاہ رخ خان لوگوں کے دِل ودماغ پر چھا گئے ، بھارت میں لوگ بائیسکل پر سفر کرنے کے بجائے ٹاٹا گاڑیاں خریدنا شروع کردیں۔ پاکستان میں لوگ پیدل چلنے کے بجائے موٹر سائیکل پر اُڑنا شروع کردیا،پاکستان اور بھارت دونوں ایٹم بم سے مسلح ہوگئے ، اور جو دونوں کے مابین جنگ نہ کرنے کا شاخسانہ بن گیا۔ دلیپ کمار کی فلم جب انداز یا آن ریلیز ہوئیں تھیں تو اُس وقت پاکستان کے سینما میں تھرڈ کلاس کی ٹکٹ کی قیمت 12 آنے ہوا کرتی تھی. لیکن ٹکٹ کا ملنا آسمان پر پیوند لگانے کے مترادف ہوتا تھا، دوتین غنڈے ٹکٹ کاؤنٹر پر ڈٹ جاتے تھے اور ساری ٹکٹیں خرید لیتے تھے بعد ازاں وہ اُن ٹکٹوں کو بلیک میں فروخت کیا کرتے تھے۔ اِس صورتحال سے مجھے جس طرح ذہنی کوفت ہوا کرتی تھی اُسکا بیان کرنا دشوار ہے، میں بارہا یہ سوچا کرتا تھا کہ مجھے فوج میں شمولیت اختیار کرلینی چاہیے اور اِن سماج دشمن عناصروں کی بیخ کنی کردینی چاہیے لیکن بدقسمتی سے اُس وقت میرے ارد گرد کا ماحول کچھ ایسا تھا جس میں ہر نوعمر فوج میں میجر یا کرنل بننے کے بجائے فلم میں ہیرو بننے کے بارے میں زیادہ سوچتا تھا، اُس کے کمرے کی دیواروں پر فلمی ستاروں کی تصویریں آویزاں ہوا کرتیں تھیں اور ہاں سر کے بال بھی دلیپ یا سنتوش کٹ کا ہونا لازمی ہوتا تھا، پاکٹ کومب رکھنا بھی ضروری ہوتا تھا، تاکہ ہوا سے اگر بال بکھر جائے تو اُسے سنوارنے میں زیادہ دیر نہ ہو.گھر سے بھاگ کر فلمی دنیا کیلئے قسمت آزمائی کرنا بھی قیاس از بعید بات نہ تھی، میرے پڑوس کا ایک لڑکا جو ایک آنکھ کا کانا تھا فلموں میں کام کرنے کیلئے اپنے گھر سے بھاگ کر لاہور پہنچ گیا تھا تاہم اُس کے والد اور والدہ بھی اُس کا پیچھا کرتے کرتے لاہور پہنچ گئے تھے بعد ازاں وہ لوگ لاہور میں ہی سکونت اختیار کر لیں تھیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب فلم آن ڈھاکہ کے ایک مشہور پکچر ہاؤس گلستان میں لگی تو میں اور میرے بھائی جان اُسی دوران اسکول کی کتابیں خریدنے کیلئے وہاں موجود تھے، ہمارے بھائی جان کو بھی فلم دیکھنے ، اداکاری اور نغمہ نگاری کا بہت شوق تھابلکہ اُنہوں نے ایک مرتبہ سنتوش کمار کو ایک خط بھی لکھ دیا تھا اور سونے پر سہاگا جس کا جواب بھی آگیا تھا. بہر کیف ہم دونوں کا یہ عزم صمیم تھا کہ ہم فلم آن دیکھ کر ہی ڈھاکہ سے واپس لوٹیں گے۔ ہم دونوں شام کو تھرڈ کلاس کی ٹکٹ خریدنے کیلئے لائن میں کھڑے ہوجاتے تھے اور اُنہی منحوس بلیک مارکٹرزکے چہرے کو دیکھ کر خراماں خراماں گھر واپس لوٹ آتے تھے بعض اوقات تو گھر لوٹتے لوٹتے رات کے 9 بج جاتے تھے جس کی وجہ کر ہمیں اپنے ماموں جان سے ڈانٹ ڈپٹ بھی سننی پڑتی تھی۔ اِن ہی وجوہات کی بنا پر ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم کتابیں نہیں خریدینگے اور اُس کی رقم سے تھرڈ اکلاس کی ٹکٹ خریدنے کے بجائے فرسٹ کلاس میں بیٹھ کر فلم آن کو انجوائے کرینگے۔ رہی کتابیں تو امّی جان کو یہ بتادینگے کہ کتاب کی رقم کو کسی نے بس میں پاکٹ مارلیا تھااور کتابوں کے بغیر بھی ہم امتحان پاس کر سکتے ہیں لیکن فلم آن کے بغیر نہیں، ہم نے فلم آن دیکھ لی اور اپنے ماموں جان کو بھی بتا دیا، اُنہوں نے کہا کہ وہ بھی فلم آن دیکھ چکے ہیںاور اُنہوں نے اُس فلم پر اپنے قیمتی تبصرے سے بھی ہمیں نواز دیا، ہم نے سوچا کہ ہم نے فلم کہانی کی بنا پر نہیں دیکھی تھی بلکہ دلیپ کمار کی اداکاری دیکھنے کی ہمیں تمنا تھی،دلیپ کمار کی فلم دیکھنے کے دیوانوں کی پاکستان میں کوئی کمی نہ تھی. یہی وجہ ہے کہ جب اُن کی مغل اعظم ریلیز ہوئی تو سینکڑوں لوگوں نے اُس فلم کو دیکھنے کیلئے پاکستان سے بمبئی، دہلی اور کلکتہ کا سفر کیا، ایک فلم پروڈیوسر نے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے فلم مغل اعظم کو بمبئی کے ایک سینمامیںروزانہ تین مرتبہ اور ایک ہفتے تک مستقلا”دیکھتے رہے تاکہ وہ دلیپ کمار کی اداکاری کے اسرار رموز سے واقف ہوں۔دلیپ کمار کی فلمیں اور اُن کی اداکاری کو والہانہ انداز میں سراہنے کی وجہ یہ تھیں کہ وہ کبھی مایوسی کی پیامبر بننے کی بجائے امید کی ایک کرن نظر آتی تھیں۔ وہ پاکستان کی بھونڈی فلمیں جس میں رونے دھونے کے علاوہ کچھ اور نہ ہوتا تھا اُس سے منفرد ہوتیں تھیں یہی وجہ ہے کہ دلیپ کمار خوشی کا ایک دوسرا نام تھا جس کی فلم دیکھنے سے قبل ہی لوگ اُس کے دلدادہ بن جاتے تھے۔
تاہم دلیپ کمار سے ہماری عقیدت و احترام کا جذبہ زیادہ دِن تک پنپ نہ سکا، ایوب خان کے مارشل لاکے ساتھ ہی پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ میں بھی یکسر تبدیلی آگئی۔ رہی سہی کثر بھی 1965 کی جنگ نے پوری کردی،پاکستان بھر میں بھارتی فلموں پر پابندیاں عائد کردیں گئیں ، ڈھاکہ کے ایک جلوس میں بھارتی فلمیں جس میں دلیپ کمار کی فلم انسانیت، انداز اور مغل اعظم شامل تھیں کو نذر آتش کردیا گیا۔ سابق مشرقی پاکستان کے ترقی پسند شاعر و ادیب اِس انتہا پسندانہ اقدام پر دھیمے الفاظ میں صدائے احتجاج بھی بلند کیا، لیکن اُن کی کاوشیںنقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئیں۔بہر نوع ہم دنیائے فلم کے ایک عظیم انسان دلیپ کمار کی ہم سے جدائی پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور اﷲ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here