کوئٹہ (پاکستان نیوز)باپ نے امریکہ پلٹ 14سالہ بیٹی کو برادر نسبتی کے ساتھ مل کر موت کے گھاٹ اتار دیا ، کوئٹہ پولیس کے مطابق قتل ہونیوالی 14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کو اس کا والد گھمانے پھرانے کے بہانے پاکستان لایا تھا اور ایک ہفتے تک لاہور کی سیر بھی کرائی۔ اس کے بعد کوئٹہ لا کر اپنے سالے (لڑکی کے ماموں) کے ساتھ مل کر اپنی بیٹی کو قتل کیا۔14سالہ حرا کو 27 جنوری کو کوئٹہ کے پولیس تھانہ گوالمنڈی کی حدود میں بلوچی سٹریٹ میں گھر کے سامنے گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس کے ذیلی ادارے سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے سربراہ ایس ایس پی ذوہیب محسن کا کہنا ہے کہ لڑکی کے قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ ٹی ٹی پستول، موٹر سائیکل اور مقتولہ کا موبائل فون برآمد کرلیا گیا ہے۔ان کے مطابق ‘موبائل فون کو فرانزک تجزیے کے لیے لیبارٹری بجھوا دیا گیا ہے۔ ہم اس کا موبائل فون کھلوانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اس میں موجود مواد کا تجزیہ کرسکیں۔انہوں نے بتایا کہ قتل میں ملوث مقتولہ کے والد انوار الحق راجپوت اور ماموں طیب علی کا عدالت نے نو روزہ جوڈیشل ریمانڈ دے دیا ہے۔ تفتیش میں دونوں ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے حرا کو اس کے پوشاک، رہن سہن اور سماجی روابط کی وجہ سے قتل کیا۔ایس ایس پی کے مطابق والد کا کہنا ہے کہ بیٹی رات کو دیر سے گھر سے نکلتی تھی اور پوچھنے پر کچھ نہیں بتاتی تھی۔ سمجھانے کی کئی بار کوشش کی مگر چیزیں درست نہ ہوئیں تو یہ انتہائی قدم اٹھانے کافیصلہ کیا۔اس سے پہلے گوالمنڈی پولیس تھانہ کے ایس ایچ او بابر بلوچ نے پاکستان نیوز کو بتایا تھا کہ والد نے دوران تفتیش کہا کہ انہیں بیٹی کے کردار، ٹک ٹاک اور انٹرنیٹ پر ناپسندیدہ ویڈیوز ڈالنے پر اعتراض تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم انوار الحق نے ابتدائی طور پر پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے جھوٹا بیان دیا کہ ان کی بیٹی کو گھر کے سامنے نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے زخمی کیا اور ہسپتال لے جاتے ہوئے وہ دم توڑ گئی۔ ملزم نے اپنی بیٹی کا مقدمہ بھی خود پولیس میں درج کرایا۔سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے ایس ایس پی زوہیب محسن نے بتایا کہ ‘واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایس سی آئی ڈبلیو نے کرائم سین اور ہومیسائیڈ یونٹ کو انویسٹی گیشن افسر کے ہمراہ موقع پر روانہ کیا۔ موقع سے اور ڈیجیٹل شواہد اکٹھے کیے۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی ڈھونڈیں لیکن ہمیں ایسا کچھ نہیں ملا جس کا دعویٰ اس کا والد کررہا تھا۔