پاکستان کیلئے IMF کے بغیرگزارہ مشکل

0
11

اسلام آباد (پاکستان نیوز) برطانیہ کے فارن، کامن ویلیتھ اور ڈیولپمنٹ آفس کے چیف اکانومسٹ پروفیسر عدنان خان ایک عام ملک کو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں، نہ ہی ہونی چاہیے، تاہم پاکستان کے آئندہ چند سال آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر مشکل دکھائی دیتے ہیں، جس کی ایک وجہ وسیع مالیاتی خلیج اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے۔ایکسپریس ٹربیون کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مطلب بحران سے نکلنے کیلئے اصلاحات کرنا ہے، پروگرام از خود طویل المدت معاشی نمو کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا۔ البتہ آئی ایم ایف کا استحکام پروگرام کچھ اہم شرائط عائد کرتا ہے جوکہ دیگر اصلاحات کیساتھ معاشی نمو کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔آئی ایم ایف کے تین سالوں میں محض چھ ارب ڈالر پروگرام پر انہوں نے کہاکہ پاکستانی معیشت کی ضرورت اس پروگرام کے حجم سے کہیں زیادہ بڑی ہے، مگر آئی ایم ایف اس لئے اہم ہے کیونکہ پاکستان کے روایتی سپورٹرز چین اور خلیجی ممالک آئی ایم ایف کی طرف دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا ایک چھتری کا کردار اس مرتبہ شاید کام نہ کرے کیونکہ حالیہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی کامیاب تکمیل کے باوجود کسی غیر ملکی کمرشل بینک نے نئے قرضے نہیں دیئے، نہ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی منفی درجہ بندی میں بہتری کا اشارہ دیا۔ انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کا بطور چھتری کردار متعلقہ اصلاحات کیساتھ ہی کام کر سکتا ہے جوکہ معاشی بگاڑ ختم کرنے کیلئے ضروری ہیں تاکہ پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بحرانوں کا ذمہ دار آئی ایم ایف نہیں کیونکہ اس کی وجہ پاکستانیوں کا پیداواری سے کہیں زیادہ صارف ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام مختصر مدت میں استحکام اور وقتی مسائل پر قابو پانے کیلئے ہوتا ہے، جبکہ ہمیں اپنے جن گہرے مسائل کا علاج کرنا ہے،اس کیلئے یہ پروگرام کافی نہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی معیشت گزشتہ چند سال سے جس صورتحال سے دوچار ہے،اس میں اپنے قرضے ادا نہیں کر سکتی، ملکی محصولات کا 60 فیصد سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے۔محصولات کی موجودہ سطح قرضوں کی ادائیگی کیلئے کافی نہیں۔ کئی ملکوں نے آئی ایم ایف پروگرام طویل المدت اصلاحات کیلئے استعمال کیا ہے، اگر پاکستان ایسا کر سکتا ہے توپھر کسی مرحلے پر پروگرام سے نکل سکتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری پر انہوں نے کہا کہ مواقع ہونے پر ہی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے یہاں آئیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار مقامی سرمایہ کاروں کی طرف دیکھتے ہیں، اور مقامی سرمایہ کار بے یقینی کا شکار ہیں۔ مقامی سرمایہ کار بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ معیشت کسی کروٹ بیٹھتی ہے اور آیا حکومت اصلاحات کیلئے سنجیدہ ہے کہ نہیں۔کراچی اور لاہور کے تاجروں سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقامی سرمایہ کار ”دیکھواور انتظار کرو” کے موڈ میں ہیں، وہ اپنی رقم ضائع نہیں کرنا چاہتے۔پاکستان صرف اس صورت آگے بڑھ سکتا ہے کہ حکمرانوں سمیت تمام اشرافیہ اور شہری اپنی تقدیر کے فیصلے کی ذمہ داری خود اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ بیرونی ایکٹرز نے ایک ملک کو تبدیل کیا ہو، پاکستان پر بھی یہی اصول صادق آتا ہے۔متوقع سعودی سرمایہ کاری پر انہوں نے کہا کہ مختصر مدت میں استحکام کیلئے ٹھیک ہے، بیرونی سرمایہ کار پہلا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ پیداواری شعبوں میں مقامی تاجر سرمایہ کاری کیوں نہیں کر رہے۔ پاکستان کو صرف برآمد ی شعبوں میں پر توجہ دینی چاہیے، فاضل گنجائش اور کپیسٹی چارجر کی وجہ سے پاور سیکٹر پر بالکل نہیں، پاکستان نے سعودی عرب کو 1920میگاواٹ کی مجموعی پیداوار کے دو منصوبوں کی پیشکش کی ہے، دیگر شعبوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے توانائی سب سے کم ترجیجی شعبہ ہونا چاہیے۔ زراعت، تھوک و پرچون سیکٹر اور رئیل سٹیٹ سمیت نصف سے زیادہ معیشت پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ اپنے حجم سے تین گنا ٹیکسزدیتاہے ، تھوک و پرچون سیکٹر محض 3 فیصد، رئیل سٹیٹ کا شیئر ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں 10 فیصد غریب اپنی آمدنی کے تناسب سے 10فیصد امیروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں کیونکہ دو تہائی ٹیکس بالواسطہ وصول کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن مشکل اصلاحات پر اتفاق ہوا ہے وہ بہت مہنگی ہیں۔ لوگ منتظر ہیں کہ حکومت کون سی پالیسیاں اختیار کر تی ہے۔وزیراعظم کیلئے ان کا مشورہ ہے کہ مالیاتی پالیسیاں فوری تبدیل ہونی چاہئیں، وہ انسانی وسائل پر زیادہ سرمایہ کاری کریں، ایک عرصہ سے پاکستان نے انسانی کیپیٹل میں سرمایہ کاری نہیں کی ،انسانی وسائل کے شعبہ میں ترقی کا فقدان واضح دیکھنے کو ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانوی فارن، کامن ویلیتھ اور ڈیولپمنٹ آفس پاکستان کی بہترین مدد تکنیکی معاونت اور مشورے کی صورت میں کر سکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here