”مہم جوئی کی سیاست! ”

0
56
پیر مکرم الحق

انگریزی کا ایک لفظہ ہے۔ ADVENTURISM جسکا مطلب ہے مہم جوئی جسکی اگر مزید توصیف کی جائے تو اس کا مکمل مفہوم یہ ہے کہ کسی نظام کو تجرباتی طور یا طریقے سے تبدیل کرنے کی کوشش لیکن اس کوشش کے پیچھے ایک نظریہ اور طویل جدوجہد ہی اس کوشش کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ لیکن اور مائو نے مارکسی اور اینجلز کے دیئے گئے نظریاتی نظام کو رکھ کر اسے لاگو کرنے کی جدوجہد کی اور جسکے نتیجے میں روس اور چین میں انقلاب آیا۔ ان دونوں معاشروں میں ایک قدر مشترکہ یہ تھی کہ انکی زبانیں اور ثقافت ایک تھی اسکے پیچھے ایک طویل جدوجہد تھی۔ ان انقلابات کے پیچھے جو قائدین تھے وہ مضبوط کردار اور استقامت کے لوگ تھے۔ بادشاہت سے لوگ بیزار ہوکر اقتدار انتظام اور وسائل میں عام آدمی کی شراکت کی بات ہوئی تھی، شاہیت سے لوگ تنگ آئے ہوئے تھے آمرانہ نظام کی اوائلی صورت شاہی نظام تھا ،بادشاہ سلامت نے جو کہہ دیا وہ پتھر پر لیکر تھی۔ لیکن سوچنے سمجھنے والے لوگوں کے دماغ میں جو سوالات اُٹھتے تھے انکی تشنگی نے عوام وناس میں ایک غم وغصہ نے جنم دیا اور پھر انہوں نے بغاوت کا راستہ اپنایا لیکن اور مائوزے تنگ اکیلے نہیں تھے ان کے ساتھ نظریاتی اور علم رکھنے والے لوگوں کی ایک لمبی لائین تھی جو قیادت کی اہلیت تو نہیں رکھتے تھے البتہ مشورے دینے کی قابلیت ضرور رکھتے تھے کیونکہ جوش میں دانشمند ساتھیوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ انقلاب لانے کیلئے جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی درکار رہتا ہے۔ لیکن اپنے مقصد کو ہمیشہ مقدس رکھا جاتا ہے۔ تاکہ حکمت عملی کی تشکیل کے مراحل میں اپنے اصل مقصد کو کبھی قربان نہ کیا جائے۔ راستے تو بہت ہوسکتے ہیں منزل ایک ہونی چاہئے۔ پھر جدوجہد کے راستے پر میر کارواں بھی ایسا ہونا چاہئے جوکہ اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعہ جس کا تصور بنایا ہے کہ !
نگاہ بلند، سخن دلنواز
جاں پر سوز یہی ہے
رختیہ سفر میر کارواں کیلئے
جوکہ کردار کا گفتار کا غازی ہو وہی منزل تک لیجا سکتا ہے۔ صرف بڑی باتوں سے انقلاب نہیں لے آیا جاتا ہے بلکہ لوگوں کا دل اپنے کردار اور گفتار سے جیت کہ ایک جدوجہد کو کامیاب کیا جاسکتا ہے۔ پھر جو انسان اپنی زبان پر قائم نہ رہے اور اس وعدہ خلافی کو ایک اچھے رہنما یا سپہ سالار کی نشانی بتائے جس کی زبان پر کوئی یقین نہ کرے تو وہ جھوٹا اور خائن کہلاتا ہے۔ جو رہنما دوسروں کی عزتوں کو اچھالے اور مخالفین کی تذلیل اور تحقیر کرے وہ اپنا کبھی اچھا تاثر نہیں چھوڑتا ہے۔ آجکل بدقسمتی سے امریکا اور پاکستان کو ایسے ہی قسم کے رہنمائوں جو اپنی اقتدار کی جنگ کو ایک انقلاب کہہ کر عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان دونوں رہنمائوں میں کئی قدریں مشترکہ ہیں۔ آپ سمجھ گئے ہونگے لیکن پھر بھی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ ہم ڈونالڈ ٹرمپ اور عمران خان کی بات کر رہے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ دونوں روایتی سیاستدان نہیں۔
2۔ دونوں کا ماضی اور حال بھی رنگین ہے۔
3۔ اپنے کو دونوں عقل کل سمجھتے ہیں اور دوسروں کو بیوقوف
4۔ اپنے اقتدار کے حصول کی جنگ میں سب کچھ دائو پر لگانے کیلئے تیار ہیں۔
5۔ وہ باتیں تو بڑی بڑی کرتے ہیں عملی طور پر کچھ کر دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔اپنے گزشتہ دور اقتدار کے خود ہی معترف ہیں۔ انکی کارکردگی ناقص رہی ہے۔
6۔ حد درجہ انا پرست اور ضدی ہیں۔
7۔ کبھی بھی شکست کو تسلیم نہیں کرتے چاہئے انتخابی شکست ہو یا عدالتی شکست ہو۔
بڑی حیرتناک بات ہے کہ دو جماعتی سربراہ ہزاروں میل کے فاصلے پر رہے پھر بھی سوچ، صورت اور بالوں کے معاملے میں اسقدر مماثلت رکھتے ہیں۔ عروج و زوال بھھی ساتھ آیا تقریباً دونوں کے موجودہ حالات بھی تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔ ایک بظاہر کامیاب بزنس مین اور دوسرا ایک عالمی شہرت رکھنے والا کرکٹر، البتہ دونوں کی زندگی خصوصاً اوائلی زندگی اور پروان ملتا جلتا ہے۔ دونوں کے والد کوئی خاندانی طور پر امیر یا دولت مند انہیں تھے نئی دولت ملی تھی ٹرمپ کے تو دو اور بھائی تھے اور نہیں بھی لیکن ہمارے لاڈلے اکیلے بھائی تھے تین بہنیں تھیں گھر میں ماں کے لاڈلے تھے۔ باپ جلد ہی دنیا سے رخصت ہوگئے پیچھے کافی ملکیت بنا کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ شاہی خاندانوں سے مراسم دونوں کے رہے۔ احساس برتری دونوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کسی کو اپنے برابر نہیں سمجھتے غریب سے بات بھی کرتے ہیں۔ تو سیاسی فائدے کیلئے ہمدردی، درگذر اور ملنساری کے جذبات سے عاری ہیں۔ دونوں کی عوامی مقبولیت کم عرصہ میں بڑھی ہے ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ اللہ خیر کرے عالم دین کی!!!! ۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here