میں گزشتہ 42 سال سے امریکہ میں مقیم ہوں لیکن آج بھی دیگر بیرون ملک پاکستانیوں کی طرح میرا دل بھی پاکستان کیلئے دھڑکتا ہے، وطن عزیز اور عوام کی خوشحالی اور سکون کیلئے ایک امید مسلسل رہتی ہے لیکن آئے دن یہ آس ایک خواب کی صورت اختیار کر لیتی ہے جس کی تعبیر اُلٹ ہی ہوتی ہے۔ میری پاکستان سے آنے کی وجہ جمہوریت کی پامالی اور اُس وقت کے آمر مطلق کے عوام مخالف رویوں کی بناء پر تھی۔ امید تھی کہ آمریت سے نجات ملے گی تو عوام اور وطن کو سکون ملے گا، سیاسی اشرافیہ نظام مملکت میں بہتری لائے گی لیکن گزشتہ 30 سال میں ایسا نہ ہو سکا۔ ہمارے ساتھی انور رومی کے بقول ”یہ کسے خبر تھی یا رو کہ سفر میں زندگی کے” جسے راہبر بنایا وہی راہزن ملے گا” عوام کے ہمدرد و رہنمائی کے دعویدار سیاسی قائدین و حکمرانوں نے جس طرح لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاستی و انتظامی اداروں میں بھی اصول، ضابطے اور قانون کی دھجیاں بکھر گئیں، ہر کام اور ہر معاملے میں دھوکہ دہی، دو نمبری اور بد عنوانی کا دور دورہ رہا اور اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑا۔ ہر غلط کام رشوت و تعلقات یا حکومتی و انتظامی تعاون سے ہوتا رہا۔ اس تیرگی میں دو ادارے ایسے تھے جو وطن عزیز اور عوام کیلئے روشنی کی کرن فوج اور عدلیہ عوام کی توقعات، خوشحالی، حقوق اور وطن عزیز کے تحفظ کی آج بھی ضمانت ہیں۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں شکست خوردہ ن لیگ کے اپنے جرائم کی سزائوں سے نجات اور کسی بھی طرح اقتدار کے حصول کی ہوس میں سازشوں کے سلسلوں کا ذکر کیا تھا، آڈیو، ویڈیو، بیان حلفی کا یہ کھیل اب دونوں جانب سے چل پڑا ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے نئی و پرانی ویڈیوز سامنے لائی جا رہی ہیں۔ مریم نواز کی ویڈیوز بعض چینلز کے اشتہارات روکنے نیز جیو دنیا کے مالکان سے عمران خان کیخلاف زہر اُگلنے کی ویڈیوز نے جہاں نواز لیگ کی کینہ پروری کو مزید اُجاگر کیا ہے وہیں یہ سوال بھی کھڑا کر دیا ہے کہ یہ پرانی ویڈیوز کس کے پاس تھیں اور حکومتی حلقوں تک کس طرح پہنچیں۔ شنید یہ ہے کہ مریم نواز کی مزید آڈیوز ویڈیوز بھی لیک ہونیوالی ہیں جو نہ صرف مریم کیلئے شرمندگی کا باعث ہو سکتی ہیں بلکہ ان کا سیاسی مستقبل بھی تاریک کر سکتی ہیں۔ دوسری جانب مریم کے شوہر نامدار بھی باتھ روم میں گرے ہوئے، پڑے ہوئوں کی ویڈیوز کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ وہ شاید بھول گئے ہیں کہ ان کی بھی باتھ روم کی ایک پرانی ویڈیو موجود ہے جو اگر سامنے آئی تو میاں بیوی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ سیاست کا یہ گندا کھیل بغض و عناد میں فوج و عدلیہ پررکیک حملے، نواز لیگ کیلئے تو سمز قاتل ثابت ہونگے ہی، ہمارے مؤقر ادارے خصوصاً عدلیہ کے حوالے سے بھی عوامی شبہات کی وجہ بن سکتے ہیں۔ دور کیوں جائیں نسلہ ٹاور کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے اقدامات گوہ قانونی حوالے سے درست صحیح لیکن عوامی سطح پر ارتعاش کا باعث بنے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے چیف جناب جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی سے ہے۔ انہوں نے تعلیم، وکالت اور جج کے فرائض اسی شہر میں انجام دیئے، کمسنی سے ادھیڑ عمری تک کراچی کو بڑھتا ہوا، پھیلتا ہوا دیکھا، ملک کا سب سے بڑا تجارتی، صنعتی مرکز اور ملک بھر کے لوگوں کے روزگار و وسائل کا وسیلہ یہ شہر محض چند برسوں میں انسانوں کا جنگل نہیں بنا بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ بعد احترام، محترم چیف جسٹس صاحب دیگر عدالتی زعماء و عہدیداران کی نسبت کراچی کے حقائق سے زیادہ واقف ہیں۔ مہاجرین کی آمد سے لے کر ملک کے طول و ارض سے آنے والوں کے تیز ترین فلو کی وجہ سے تین کروڑ آبادی کا یہ شہر پھیل کر حیدر آباد، گھارو، ٹھٹھہ، حب کی سرحدوں تک پہنچ چکا ہے۔ ان وجوہ کی بناء پر ملٹی اسٹوریز، کچی آبادیوں، تجارتی مراکز و دیگر تعمیرات ایک فطری عمل رہا ہے۔ یقیناً اس سارے عمل میں بدعنوانیاں بھی ہوئیں، سیاسی و جبری قبضے بھی ہوئے، قوانین و ضوابط کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں لیکن کیا ان سارے معاملات میں صرف مکین ہی ذمہ دار و قصور وار ہوئے؟ حکومتی و شہری اداروں، بلڈرز، منتخب اور صوبہ و شہروں کے مقتدر افراد کے گٹھ جوڑ کے بغیر یہ سب کیسے ممکن ہو سکتا تھا اگر یہ بات صحیح ہے تو برق صرف مکینوں پر ہی کیوں گرے۔
معزز عدالت عظمیٰ نے نسلہ ٹاور،تاجوڑی ٹاور، نالوں پر آبادیوں اور دیگر کئی منزلہ عمارت گرانے کا حکم تو دیدیا ہے۔ ساتھ ہی متاثرین کو بلڈرز و حکومت کی جانب سے معاوضہ کی ادائیگی و متبادل رہائش کا فیصلہ بھی کر دیا ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ نسلہ ٹاور، گجر نالہ و کورنگی نالہ کی بستیوں کے رہائشی اس سے بے گھر و بے آسرا ہو گئے ہیں نہ انہیں معاوضہ ملا ہے اور نہ متبادل رہائش اور نہ ہی متعلقہ ذمہ داروں و افراد کی کوئی پکڑ ہوئی ہے۔ ٹیلیویژن چینلز پرمتاثرہ خاندانوں کی گریہ و زاری دیکھی نہیں جاتی۔ محترم چیف جسٹس صاحب نسلہ ٹاور کو جلد از جلد گرانے کے احکامات تو دے رہے ہیں لیکن متاثرین کو معاوضے اور متبادل رہائش کیلئے نہ حکومت پر زور دے رہے ہیں اور نہ بلڈرز پر۔ ادھر آباد نے بھی کاروبار بند کرنے کا الٹی میٹم دیدیا ہے۔ آباد کے سربراہ محسن شیخانی کاصحیح مطالبہ ہے کہ نسلہ ٹاور کی بنیاد سے تکمیل تک جن اداروں نے NOCد یئے ان کے ذمہ داروں کیخلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں ہو رہا ہے جبکہ مکینوں کو مالی نقصان بھی پہنچا اور سروں سے چھت بھی چھن گئی ہے اور وہی غیض و غضب کا نشانہ بن رہے ہیں۔
سندھ پر 13 سال سے برسراقتدار پیپلزپارٹی کی حکومت بھی اس ایشو پر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔جبکہ متعلقہ اتھارٹیز جنہوں نے NOC دیئے ان کے ہی زیر انتظام ہیں۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ کراچی میں 700 سے زائد کثیر المنزلہ عمارتیں غیرقانونی ہیں۔ ان کے انہدام کی صورت میں کتنے ہی لاکھوں افراد و خاندان متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں خصوصاً کراچی میں کیا امن عامہ کی صورتحال مخدوش نہیں ہوگی۔ اس سے انکار نہیں کہ عدلیہ کے اقدامات و فیصلے قانون و انصاف کی روشنی میں ہی ہونے چاہئیں لیکن کیا معروضی حالات و واقعات کو مد نظر رکھنا اور امن و امان کو برقرار رکھنا بھی پیش نظر نہیں ہونا چاہیے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ متعلقہ بلڈرز اور اداروں کی گرفت کر کے متاثرین کیلئے متبادل رہائش اور مالی نقصان کے ازالے کو یقینی بنایا جاتا، پھر مسماری کا عمل اختیار کیا جاتا، ادھورے فیصلے عدلیہ کیلئے بھی سوال کا باعث بنتے اور عوام کیلئے بھی حکومت و ریاست سے بدگمانی کا سبب ہوتے ہیں۔
ملک میں اس وقت سیاست میں جو بدبودار گند پھیلا ہو اہے، متذکرہ بالا واقعات کے باعث کہیں عوامی رد عمل و غیض کی صورت اختیار نہ کر جائے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہر ادارہ، شعبہ اور طبقہ اعتدال کی راہ اپنائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ پورا معاشرہ ہی نفرت، بدامنی اور انتشار کی گندگی میں لتھڑ جائے۔
٭٭٭