حکمت عملی اور ہم!!!

0
115
رعنا کوثر
رعنا کوثر

انسان کو اپنی زندگی میں بڑے تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔کہیں خوشی ہے تو کہیں غم، زندگی میں دھچکے بھی لگتے ہیںاور دھچکوں سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔جیسے ایک گاڑی اگر کسی وجہ سے بند ہوجائے اور دھکوں سے سٹارٹ ہو تو بہت تیزی سے بھاگتی ہے اور لگتا ہی نہیں کے یہ گاڑی بند ہو رہی تھی۔اسی طرح انسان کو کبھی یہ دھکے اور دھچکے لگتے ہیں۔تو اس کے اندر کی انرجی ابھر کر آجاتی ہے۔اور یوں لگتا ہے کے اس انرجی سے اس کی زندگی کی گاڑی دوبارہ چلنی شروع ہوئی ہے۔ان دھکوں کی وجہ سے زندگی کی یہ گاڑی چلتی چلی جائے گی۔یا پھر بند ہو کر رہ جائے گی اور پھینک دی جائے گی۔اب یہ گاڑی کی اپنی کارکردگی اور اس انجن کے اوپر ہے جس پر ہمیشہ توبہ دی گئی اور جس کے ذمے وہ گاڑی تھی اس نے ہر ممکن طریقے سے اس پر توبہ رکھی چاہے وہ پرانی گاڑی تھی یا اس کی کوئی خاص ویلیو نہیں تھی۔
انسان بھی جیسے جیسے پرانا ہوتا جاتا ہے اس کے اندر کا انجن یا اس کی روح کو بہت اچھ اور صاف ستھرا ہونا چاہئے۔تاکے کوئی بھی دھکہ یا دھچکہ جو اس کی زندگی میں آئے اس کی زندگی کی گاڑی کو بند نہ کردے۔بلکہ اسے دوبارہ رواں کردے ان راستوں پر جو اچھائی کے راستے ہیں ان راستوں پر جو روح کو مزید نکھار دیں۔کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں آنے والے حادثوں پریشانیوں اور اچانک ہوجانے والے دھچکوں سے یا تو اچھے راستے پر چلے جاتے ہیں۔یا پھر برے راستے پر چلے جاتے ہیںجس کا نام ہم نے ڈپریشن رکھ دیا ہے اور اس طرح ہم اپنی خوبیوں کو ختم کر لیتے ہیں۔اور غلط راستہ اپناتے ہیں یہ تو قدرتی بات ہے کے کوئی بھی اچانک قسم کا صدمہ یا دکھ ہمیں غمزدہ کر دیتا ہے۔یوں لگتا ہے کے اب ہم نہیں چل سکتے۔ہماری زندگی کی گاڑی بند ہو رہی ہے۔پھر آہستہ آہستہ کچھ اس گاڑی کو دکھے لگنے شروع ہوتے ہیں۔اور بند انجن بیدار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔وہ لوگ جو آپ کے اردگرد ہوتے ہیں وہ آپ کی مدد کرتے ہیں۔آپ کی بند ہوتی گاڑی ان کے دھکوں سے چلنا شروع ہوتی ہے۔اور پھر سیل رواں میں ہلکی رفتار سے داخل ہو جاتی ہے۔اللہ نے انسانوں کو شاید اسی لیے پیدا کیا ہے کے وہ دوسرے انسان کی طاقت بن جائیں۔اس کی زندگی کی گاڑی کو بند نہ ہونے دیں۔اسی لیے ہر بات میں انسان کی عظمت تسلیم کی گئی ہے۔وہ انسان عظیم ہے جو انتہائی نامساعد حالات میں بھی اپنے آپ کو کفر کرنے سے باز رکھے۔ایسے لوگ ثواب کے مستحق ہیں جو کسی کی پریشانی پر اس کا ساتھ دیں۔تعزیت کا اجر ہے عیادت کا اجر ہے۔ایک دوسرے کے لئے اچھے جذبات رکھنا کسی کی تکلیف میں اس کو تسلی دینا کہنے کو یہ معمولی باتیں ہیں۔جنہیں ہم درگزر کر دیتے ہیں۔اپنی مصروفیات میں بھول جاتے ہیں۔کے ہمارے فرائض کیا ہیں۔یہ تمام باتیں اسی لیے ہمارے اوپر لاگو کی گئی ہیں کے ہم اس سے کسی ڈوبتے انسان کو سہارا دے سکتے ہیں۔کسی کی پریشانی میں محض اسے کمپنی دینا اس کا خیال کرنا ہی اس شخص کو بہت ہمت اور قوت دے دیتا ہے۔کسی کے اچھے الفاظ تسلیاں ایک انسان کو دکھ سے نکالنے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہیں۔ہمارے مذہب نے ہم کو جو اچھے اخلاق سکھائے ہیں۔اس کے نفسیاتی پہلو کا جائزہ لیں تو انسان ہی انسان کی گاڑی کو گھسیٹ کر فٹ پاتھ سے سڑک پر لا سکتا ہے۔مگر یہ انسان کتنا نادان ہے کے ان حکمتوں کو سمجھ نہیں سکتا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here