کرائے دار کو نکالنا کوئی آسان کام نہیں!!!

0
50
حیدر علی
حیدر علی

جب سٹی مارشل کے دفتر سے مجھے فون آیا کہ آدھے گھنٹے میں مارشل میرے گھر کرائے دار کو نکالنے کیلئے پہنچے گا تو میرے دِل میں ملے جلے جذبات موجزن کرنے لگے، میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ اِس بار بھی میری کرائے دارن کوئی نیا حربہ نکال کر مارشل کو بھی جل دے دیدیگی جیسا کہ وہ ماضی میں مختلف حیلہ حوالہ کرکے اپنی اِیوکشن کو رکواتی رہی ہے، کبھی تو اُس نے جج کو یہ جواز پیش کیا کہ وہ ملازمت نہیں کرتی ہے ، دراصل ملازمت کرنا نہیں چاہتی ہے اسلئے وہ کرایہ ادا نہیں کرسکتی، اور کبھی آخری حربے کے طور پر انتہائی منظم طریقے سے اُس نے جج کو اپنی بیدخلی رکوانے کیلئے یہ وجہ بتائی کہ وہ سخت بیمار ہے ، اِسلئے وہ نقل مکانی کی جھنجٹ میں پھسنا نہیں چاہتی ، اور ساتھ ہی ساتھ کرایہ ادا کرنے کی بھی متحمل نہیں ہے. لیکن ابھی تو عشق کے امتحان اور بھی ہیں،مارشل کی آمد سے ایک نئے چیپٹر کا آغاز ہونا تھا، مارشل کو میں نے اوپر جانے کا راستہ بتا دیا،اُس نے کرائے دارن کو اپنی شناخت بتا کر دروازہ کھولنے کی درخواست کی ، اُس نے چیخ کر اُسے یہ بھی بتا دیا کہ وہ اُسے اِیوکٹ کرنے آیا ہے لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہ آیا، اُسے ڈیوڑھی سے تیسری منزل پر پہنچنا تھاجو بند تھا، میں نے اپنی چابی سے دروازے کے لاک کو کھول دیا، لیکن دروازہ اندر سے کسی لوہے کی سلاخ کے سہارے سختی سے بلاک تھا، مارشل نے دھکے مار کر اُسے کھولنے کی کوشش کی لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی. مارشل نے مجھ سے پوچھا کہ دروازے کو کھولنے کی اور بھی کیا ترکیب ہے. میں نے فورا”فراٹے سے اُسے جواب دیا کہ میرے پاس سا مشین (آری) ہے جس سے دروازے میں ایک بڑا سا سوراخ کیا جاسکتا ہے، اُس نے سا مشین لانے کی حامی بھر لی. لیکن کرائے دارن جو اندر سے ساری باتیں سن رہی تھی اچانک جواب دیا کہ وہ اپنا لباس تبدیل کر رہی ہے اور چند منٹ بعد دروازہ کھول دیگی، اُس نے دروازہ کھول دیا اور وہ اور مارشل ایک دوسرے کے روبرو ہوگئے،مارشل نے کرائے دارن کو وضاحت کرتے ہوے کہا کہ وہ پندرہ منٹ کے اندر نکلنے کیلئے تیار ہوجائے ورنہ وہ پولیس بلوا لیگا، کرائے دارن نہیں نکلنے پر اڑی ہوئی تھی، اُس کا کہنا تھا کہ اُسے ایوکشن کی کوئی پیشگی نوٹس نہیں دی گئی تھی ، اِسلئے اُس کا نکلنا غلط ہوگا. اُس نے میری جانب دیکھتے ہوے کہا کہ میں مارشل کو اُسے نہ نکالنے کیلئے مداخلت کروں، جسے میں نے اپنی بیگم اور بیٹی کی موجودگی میں یکسر مسترد کردیا.ٹھیک ہے کہ یہ میری حماقت تھی کہ میں نے اُسے ایک مظلوم شخص سمجھا اور اُس کی کریڈٹ چیک کئے بغیر کمرہ کرائے پر دے دیا تھا.اِسلئے وہ مجھ پر مہربان تھی۔
تاہم میں نے سوچا کہ یہ عرصہ حیات کا واحد موقع ہے جسے اگر میں نے گنوادیا تو تیسری منزل تا قیامت کیلئے ہاتھ سے نکل جائیگی جس کا وہ برابر دعوی کرتی رہی تھی کہ” یہ اُس کا گھر ہے”، اور میں سوچتا رہتا تھا آخر ایک کمرہ ایک ہزار ڈالر ماہانہ کرائے پر لے کر اور سالوں سال کرایہ نہ ادا کرکے ، اور بعد ازاں دوسرے کمرے کو بھی قبضہ کرکے آخر وہ کس منطق کے تحت اِسے اپنے باپ کی جائیداد سمجھنے لگی ہے، شاید وہ یہ سب کچھ نہ کرتی تو میرے دِل کے گوشہ میں اُس کیلئے رحم کا جذبہ ہوتا، میں یہ بھی سوچتا تھا کہ آخر اُس نے مجھے ایک سافٹ ٹارگٹ کیوں سمجھ لیا تھا، کیوں نہیں وہ ویسٹ چیسٹر یا نیو ہیون کے کسی عالیشان محل کو قبضہ کرلیا؟ یا ہمارے معاشرے کا نیا اصول یہ بن گیا ہے کہ غاصب جس کسی کہ مکان میں داخل ہوہ اُسکا ہو جائیگا. بہرکیف وہ پندرہ منٹ میں تیار نہ ہوئی اور ماشل نے پولیس بلوالی. اور میری کرائے دارن بالآخر ہمیشہ کیلئے مجھ سے جدا ہوگئی، عدالتی کاروائی تو میں نے ایک ماہ بعد ہی شروع کردی تھی جب اُس نے کرایہ ادا نہیںکیا تھا، میرے وکیل ہیرس اینڈ ڈیوڈ کا دفتر ٹھیک کوئینز ہاؤسنگ کورٹ کے سامنے ہے جس کی صلاحیت اور موکل کے مفاد کی حفاظت کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں، اُس کی فیس بھی انتہائی معقول ہے.متعدد ہیئرنگ کو ہماری کرائے دارن نے موشن فائل کرکے ملتوی کرادیا تھا، میں نے فون کرکے جج سے شکایت کی تھی اور اُس کی پیش رفت پر مزید موشن کو انکار کیا جانے لگا تاہم عین وقت پر کرونا وائرس کی وجہ کر ایوکشن موراٹوریئم کا نفاذ عمل میں آگیاجس کی وجہ کر عدالتی کاروائی یک دم رک گئی. تاہم ایسے کرائے دار جو زیادہ سے زیادہ چار یونٹ کے مالک تھے اُنہیں اجازت تھی کہ وہ اپنے رشتہ داروں کی رہائش کیلئے کرائے دار کو بیدخل کر اسکتے تھے ، لیکن اِس قانونی رعایت کا عمل مفقود تھا۔ ہماری قانونی جنگ کا آغاز سال رواں کے مارچ سے اُس وقت شدت اختیار کرلیا تھاجب ایوکشن موراٹوریئم کا خاتمہ ہوگیا. پہلی ہیئرنگ میں ہماری کرائے دارن نے اپنی وکیل کے ماتحت ہمیں یہ پیشکش کی کہ وہ تین ماہ بعد مکان خالی کردے گی . ہم لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ اِسے قبول کرلیا اور ایک معاہدہ میں دونوں پارٹیوں نے دستخط کر دیئے جس کی رو سے اگر وہ اپنے وعدے کے مطابق تین ماہ کی مدت کے بعد مکان خالی کردے گی تو اُس سے کوئی بقایاجات کی رقم نہیں لی جائیگی. لیکن تین ماہ بعد اُس نے مکان خالی نہیں کیا بلکہ اِس کے بر مخالف اُس نے مزید ایک موشن فائل کردیا اور عدالت سے درخواست کی کہ اُسے خرابی صحت کی بنا پر دو ماہ مزید رہنے کی مہلت دی جائے . عدالت نے اُسے ایک ماہ کی مہلت مزیددیدی.ایک ماہ بعد عدالت نے میرے وکیل کی کوششوں کی بدولت اُس کے خلاف پروانہ ایوکشن جاری کردیا لیکن ایوکشن سے چند دِن قبل اُس نے اپنی بیماری کو بہانہ بناکر تین ہفتے کی مزید توسیع کرا لی، اِس دوران اُسے پتا چل گیا کہ اب اُس کا کوئی بھی بہانہ، کوئی بھی سازش کام نہیں آسکتی ہے. میرا مشورہ ہے کہ جن لوگوں کا کرائے داروں کے ساتھ تنازع چل رہا ہے ، وہ وقت ضائع کئے بغیر ہاؤسنگ کورٹ سے رجوع کریں. بیدخلی کی کاروائی اتنے بڑے پیمانے پر ہورہی ہے کہ مارشل کے انتظار کرنے میں تین تین ماہ لگ جاتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here