اسلام آباد(پاکستان نیوز)پاکستان کے طاقت ور خفیہ ادارے ‘آئی ایس آئی’ کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔اس صورتِ حال میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں پر ماضی میں بھی سیاست میں مداخلت سمیت، کرپشن اور دیگر الزامات عائد ہوتے رہے ہیں لیکن کسی فوجی افسر کے خلاف وہ سخت ایکشن نظر نہیں آیا جو اس وقت فیض حمید کے خلاف نظر آ رہا ہے۔پاکستان کے سابق آرمی چیف نے بھی اعتراف کیا تھا کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی رہی ہے، لیکن ساتھ ہی اْنہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اب فوج نے بطور ادارہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر سیاست میں مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن فیض حمید کے بارے میں جو الزامات سامنے آ رہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ فیض حمید اپنے مقاصد کے لیے ادارے کے ‘مقاصد’ سے آگے نکل گئے تھے۔بعض ماہرین کے مطابق جنرل فیض حمید نے ایک سیاسی جماعت کو اپنا ہتھیار بنا کر اپنی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی اور جب اس میں ناکام رہے تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج سب کچھ برداشت کر سکتی ہے لیکن اپنے ہی ادارے کے خلاف بغاوت اور سیاسی جماعت کو مدِمقابل کھڑا کرنے کے جرم کو معاف نہیں کرے گی۔