محترم قارئین! خلیفہ اول بلافصل حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت بنوساعدہ کے چھپرے کے نیچے ہوئی۔ امیرالمومنین ہو جانے کے بعد سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنھا کے اس لشکر کو جہاد کے لئے روانہ کیا جس کا جھنڈا خود حضور رسالت مآب علیہ الصلواة والسلام نے اپنی ظاہری زندگی مبارکہ میں باندھا تھا مگرحضورۖ کی علالت و وفات کی وجہ سے یہ لشکر ٹھہر گیا تھا پھر جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے”مسیلمہ کذاب اور زکواة کی فرضیت کا انکار کرنے والے مرقدین سے مسلسل نو ماہ تک آپ جہاد فرماتے رہے۔ یہاں ہیں کہ یہ سارے فتنے ختم ہوگئے اس کے بعد روم اور فارس کی سلطنتوں سے جہاد شروع کردیا اور عراق وشام کے بہت سے علاقے فتح ہوگئے۔ امیر المئومنین بن جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تجارت کے لئے بازار جانے لگے۔ راستہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مل گئے اور انہوں نے آپ کو ٹوکا اور کہا اب آپ یہ کام چھوڑ دیجئے۔ کیونکہ آب آپ خلیفہ رسول اور امیر المئومنین بن چکے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ پھر میرے اہل وعیال کیا کھائیں گے؟ یہ سن کر حضرت عمر رضی الہ عنہ اور حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کرام علیھم الرضوان باہم مشورہ کرکے ہر روز کے لئے آدھی بکری کا گوشت اور پیٹ بھرنے کے لئے اناج آپ کے اہل وعیال کے خرچ کے لئے بطور تنخواہ روزینہ مقرر کردیا اور سال بھر میں دو کپڑوں کا اہتمام جاڑے کے لئے اور دو کا ہی گرمی کے لئے کیا۔ مگر وہ بھی اس شرط پر کہ جو کپڑا پرانا ہوجائے اس کو بیت المال میں جمع کرکے نیا کپڑا لیں۔ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے مسلمانوں کے گروہ! تمہیں معلوم ہے کہ میرا پارچہ فروشی کا پیشہ میرے اہل خانہ کی پرورش کے لئے کافی تھا۔ لیکن اب میں مسلمانوں کی خدمت کی وجہ سے اپنا پیشہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے اب میں مسلمانوں کا مزدور ہونے کی حیثیت سے بیت المال سے اپنی خوراک وپوشاک کا سامان لوں گا۔ اور مسلمانوں کا مزدور بن کر ان کے لئے کام کروں گا۔ آپ کی سادگی اور تواضع وانکساری کا یہ عالم تھا کہ محلہ کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں خلافت سے پہلے بھی خلافت کے بعد بھی آپ کے پاس بکریاں لاتی تھیں، اسی طرح روایت ہے کہ مدینہ منورہ کے اطراف میں ایک اپاہج بڑھیا تھی جس کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ خبر گیری فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے معمول کے مطابق بڑھیا کے پاس خبر گیری کے لئے گئے تو خلاف امید یہ دیکھا کہ بڑھیا کے پاس روٹی پانی اور اس کی تمام ضروریاتت کا سامان کرکے کوئی شخص چلا گیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حیرت ہوئی اور وہ جستجو میں لگ گئے۔ چنانچہ ایک دن کامیاب ہوگئے کیا دیکھتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس بڑھیا کی خدمت کرکے جارہے ہیں۔ آپ نے دیکھ کر عرض کیا بھلا آپ کے سوا یہ کام کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟ دو برس تین ماہ گیارہ دن آپ مسند خلافت پر فائز رہے۔ نبی پاکۖ کی جدائیگی میں آپ کی صحت روز بروز خراب ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ سات جمادی الثانی کو بخار شروع ہوا اور پندرہ دن علیل رہ کر تریسٹھ برس کی عمر شریف میں13سن ھ کو آپ کا وصول باکمال ہوا۔ حجرہ منورہ میں رحمت عالمۖ کے پہلو میں مدخون ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا وصیت نامہ بھی بڑا رقت خیز اور عبرت آموز ہے۔ آپ نے دوران علالت سب سے پہلے اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ کرکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان فرمایا، پھر آپ نے خاص طور پر تین وصیتیں کیں۔
1۔ یہ ہے کہ آج تک میں نے جتنی تنخواہ بیت المال سے لی ہے میری فلاں زمین بیچ کر وہ ساری رقم بیت المال کو ادا کر دی جائے۔ 2۔ دوسری وصیت یہ ہے کہ خلافت کے دوران میرے مال میں تین چیزوں کا اضافہ ہوا ہے ایک حبشی غلام جو مجاہدیں کی تلواروں پر صیقل کرتا تھا۔ دوسری چادر اور تیسری پانی بھرنے والی اونٹنی، یہ تینوں چیزیں میرے فوت ہونے کے بعد خلیفہ وقت کو پہنچا دی جائیں۔ چنانچہ جب امیر المئومین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان تینوں وصیتوں کو دیکھا تو رو پڑے اور کہا کہ اے ابوبکر! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے آپ نے اپنے جانشینوں کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ 3۔ تیسری وصیت یہ فرمائی کہ میرے کفن میں تین کپڑے دیئے جائیں۔ دو چادریں تو یہی جو اس وقت میرے بدن پر ہیں۔ اور ایک نئی چادر شامل کر لی جائے۔ آپ کی خصوصیات میں سے چندیہ ہیں کہ آپ آزاد مردوں میں سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ سب سے پہلے کفار سے لڑے۔ سب سے پہلے ولی عہد مقرر کیا گیا۔ اسلام میں سب سے پہلے مسجد بنائی۔ امتوں میں سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے فیوض وبرکات سے وافر حصہ ہمیں عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے