دین اسلام کی عمارت پانچ پلرز پر استوار ہے توحید،نماز ،روزہ، حج، زکواة سمجھ لیں ان میں سے ایک بھی اگر چھوٹ گیا تو دین مکمل نہیں ہوا توحید اللہ وحدہ لا شریک کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں پانچ وقت کی نماز ہر مسلمان پر فرض ہے، رمضان کے مہینہ میں تیس روزے فرض ہیں، صبح سورج نکلنے سے پہلے اور غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیزاور لغویات بچنا ہے، زندگی میں ایک دفعہ صاحب استطاعت پر کعبے کا حج فرض ہے اور سال میں ہر بالغ صاحب نصاب جو 52 تولے چاندی کی موجودہ مالیت رکھتا ہو، اس پر دو اعشاریہ پانچ فیصد غریب جو صاحب نصاب نہ ہو کو زکواةدینا فرض ہے ،آئیے اب دیکھتے ہیں کہ زکواة میں کن چیزوں کا مدنظر رکھنا ضروری ہے، سونا اور چاندی پرزکواة لگے گی ،سونا ساڑھے سات تولہ اور چاندی باون تولہ چاندی کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، مطلب باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت یا رقم کو زکواة دینے کے لیے نصاب تصور کیا جائے اسکے علاوہ نقدی مطلب کرنسی مال تجارت جب کسی چیز کو فروخت کے رکھ دیتے ہیں، تب سے وہ مال تجارت میں شمار ہو تی ہے، یہ یاد رہے کہ جو چیزیں تجارت میں تعاون کے لیے استعمال ہوں لیکن بیچنے کے لیے نہ ہوں وہ مال تجارت میں شامل نہیں ہیں ۔مال تجارت کی قیمت لگاتے وقت اسکی موجودہ مارکیٹ ویلیو لگاتے ہیں ، زکواة کو کیلکولیٹ کرنے کا سادہ سا فارمولہ یہ ہے کہ سونا چاندی پلس نقدی یا کرنسی جو گھر یا بینک میں موجود ہو پلس مال تجارت کوئی بھی چیز جو اپنی ملکیت میں ہو اور اسے فروخت کے لیے رکھا گیا ہو، پلس وہ رقم جو قرض میں کسی کو دی گئی ہو جس کے ملنے کی امید ہو مائنس جو قرض لوگوں کو ہم نے دینا ان سب کے مجموعہ پر دو اعشاریہ پانچ فیصدزکواة لگے گی، اب دیکھتے ہیں کہ زکواةکون دے سکتا ہے ،ہر صاحب نصاب عاقل و بالغ پیدائشی مسلمان یا نو مسلم جب سے مسلمان ہوا ہے ،زکواة دینے میں کوئی بھی دن مقرر کیا جاسکتا ہے ،مثلا ہجری سال کا میں یکم رمضان سب سے زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس ماہ میں اللہ کی راہ میں دیے گئے پر اجر زیادہ ملتا ہے، بے نامی پراپرٹی جس بندے نے مال فراہم کیا ہوگا وہی اسکی زکواة دینے کا زمہ دار ہوگا یہاں مسئلہ دیکھ لیں کہ ہر مسلمان فرد نے زکواة دینی ہے ایک فرد دوسرے فرد کی زکواة اسکی اجازت سے دے سکتا ہے، بیوی کی زکواة خاوند دے سکتا ہے مگر اسکی اجازت کیساتھ اب دیکھتے ہیں کہ زکواة کس کو دے سکتے ہیں ،دو طبقے ہیں،زکواة دینے والا اور لینے والا جو زکواة دینے والا ہے وہ لے نہیں سکتا ،غریب انسان جس کے پاس اتنی مالیت نہیں ہے کہ وہ زکواة دے سکے تو وہ زکواة لے سکتا ہے مسافر سفر میں نکلا ہوا شخص جس کے پاس مال ختم ہو گیا ہو بھلے وہ کتنا بھی امیر ہو وہ زکواة لے سکتا ہے اب دیکھتے ہیں کہ جن کو زکواة نہیں دی جا سکتی بنو ہاشم کے قبیلہ کے کسی بندے کو زکواة نہیں دی جا سکتی ہاں انکی مالی امداد کی جا سکتی ہے مگر زکواة نہیں دی جائے گی، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ،حضرت عقیل رضی اللہ عنہ، حضرت حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو نفلی صدقات د یئے جا سکتے ہیں، آجکل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آل اولاد علوی یا اعوان کہلاتے ہیں شاہ یا سید بھی کہتے ہیں ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت محمد کی آل کو اعوان کہتے انکی والدہ کا نام حنفیہ تھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد حسن و حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد کو سید اور فاطمی بھی کہتے ہیں، حضرت عقیل جو کہ حضرت علی رضی اللہ کے بڑے بھائی تھے ان کا زکر زیادہ ملتا نہیں ہے ،حضرت حارث کی اولاد کو ہاشمی کہتے ہیں اس کے علاوہ ان لوگوں کو بھی زکواة نہیں دی جاسکتی جنکا نفقہ دوسروں کے ذمہ ہو والدین اولاد کو اور بیوی خاوند کوزکواة نہیں دے سکتی ۔بھائی ،بھائی کی کفالت نہیں کرسکتا، لہٰذا بھائی بھائی کو یا بہن کو زکواة دے سکتا ہے ، زکواةوہاں دینا ضروری ہے جہاں کسی کو مالک بنایا جا سکے،زکواة کی رقم سے کسی کو کفن نہی دے سکتے ،زکواة کسی بھی صورت میں دی جا سکتی ہے، جانور،کیش رقم، سونا ،چاندی لیکن بہتر ہے کہ اس صنف میں زکواة دی جائے جس سے لینے والے کو فائدہ ہو ،کسی بھی مالیت کی زکواة دی جا سکتی ہے لیکن مستحق کو مالک بنانا ہے جبرا کسی کو زکواة دی نہیں جا سکتی ،زکواة دیتے وقت بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکواةکی رقم ہے اور جس کو بھی زکواة دی ہے وہ جہاں چاہے خرچ کر سکتا ہے بذریعہ تملیک زکواةخرچ کی جا سکتی ہے سید یا اس بندے کو جس کو زکواة نہیں دی جا سکتی اسے تملیک کے زریعہ دی جا سکتی ہے ،کسی کو مالک بنا کر پھر مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ فلاں بندے کو زکواة دے دیں یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ زکواة کے مسئلہ میں اگر یہ کہا جائے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ سید کو زکواة دینا جائز نہیں ہے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ بندہ سید ہے اسکی معافی ہے مع الا فی القلوب وہ غیر مسلم جو غریب ہیں اور مسلمان ہونے بارے سوچ رہے ہوں یا ہو سکتے ہوں ان کو بھی زکواة دی جا سکتی ہے ،افضل ہے کہ جنگ میں گئے ہوئے غریب لوگوں کے بچوں کو اور صدقہ جاریہ وہ نیک عمل جو ہمیشہ جاری رہتا ہو جو کبھی ختم نہ ہوجیسے مدرسہ کے بچوں کو زکواةدے دی جائے جو دین پڑھتے ہیں اور پڑھاتے رہتے ہیں،
نوٹ: مولانا انیس باجوہ صاحب مد ظلہ العالی کے لیکچرز نوٹس جو اس کالم میں جمع کر دئیے گئے ہیں تاکہ بخشش کا ذریعہ بن سکیں شکریہ
٭٭٭