محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے!آج ایک عام سوال اور اس سے متعلقہ تحقیق پیش خدمت ہے جو عام انسان کرتا ہے اس کو احادیث و سائنس کی روشنی میں جواب تلاش کرتے ہیں ۔انسانی آنکھ جنات و شیاطین یا فرشتوں کو کیوں نہیں دیکھ پاتی ۔ ایک سائنسی ، نفسیاتی اور روحانی نظریے کا حامل مضمون ہے۔
گذشتہ مضامین کی خشکی کو نظر انداز کرتے ہوئے کیونکہ اگر اس کی جگہ کوئی تعویز عمل طلسم یا آڑی ترچھی لکیریں مار کر مبالغہ آرائی کے ساتھ یہ کہہ دیا جاتا کہ یہ صدری عمل صدیوں سے عمر و عیار کی نبیل میں بند تھا آج رات ہی بذریعہ بکتانوش مجھ تک پہنچا ہے تو شائد اس پر ہزاروں کمنٹس یا فیڈ بیک کی صورت میں سوالات کی بوچھاڑ ہوجاتی ۔۔ بہرکیف اپنے حصہ کی شمع روشن کرنے کی کوشش شروع کی ہے ان شا اللہ جاری رہے گی ۔۔۔ یہاں ایک چھوٹی سی وضاحت پیش کردوں کہ میرے مضامین بحثیت عامل وغیرہ ہرگز نہیں ہوتے میں ایک ادنی سا طالب علم ہوں جس کا اشتیاق و زوق مطالعہ تحقیق کی روشنی میں رائے قائم کرنا / نتیجہ اخذ کرنا ہے جو سہی بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ۔ اس نتیجے یا رائے کو اپ کے سامنے پیش کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اگر اپ سمجھ سکیں تو سمندر کی سطحوں سے سیراب ہونے کی کوشش کریں اور اگر کہیں اختلاف و غلطی یا کم علمی کا عنصر پائیں تو اصلاح کرکے میرے لیے مزید آسانی فرمادیں ۔ بہرکیف گزشتہ کے مضمون سے چند اہم سوال اٹھے تھے انہی پر ایک نیا مضمون لکھ رہا ہوں ۔ سوال کرنے والی شخصیت کون تھی اس کا تو علم نہیں کیونکہ انہوں نے میل میں اپنا نام نہیں لکھا مگر سوال پڑھ کر خوشی ہوئی کہ چلو کوئی تو ایسی شخصیت ہے جو اس کم علم کے الٹے سیدھے قیاس آرائیوں اندازوں پر نظر ثانی کررہی ہے ۔ اللہ پاک جزائے خیر عطا فرمائے ۔ سوال یہ تھا کہ انسان کی آنکھ میں وہ کونسے فکشن موجود نہیں ہیں جن کی وجہ سے دیگر مخلوقات کی طرح ہم انسان ان جنات فرشتوں یا شیاطین کے وجود کو نہیں دیکھ پائے۔ یہ سوال شائد گزشتہ کے مضمون میں جو حدیث پاک عذاب قبر کے حوالے سے پیش کی گئی تھی اسی سے کسی صاحب نے اٹھایا تھا مگر بہت ہی عمدہ سوال ہے جس کی کچھ شرح اپنی ناقص فہمی کم علمی کی روشنی میں کرنے کی کوشش کروں گا ۔ بنیادی طور پر اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس بات کو زہن نشین کرلیں کہ جنات و شیاطین کا کسی شخص کو مخاطب ہونا یا نظر آنا یہ دونوں الگ الگ موضوعات ہیں ۔ اس موضوع کو میں آئندہ کسی مضمون میں نفسی علوم کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا کہ کس طرح جنات و شیاطین انسانی دماغ کے اندر سے ہی تصاویر اور آوازیں لیکر مخاطب ہوتے ہیں ۔ بذات خود ان کے اندر ایسا کوئی فکشن نہیں کہ یہ کسی انسان کے اندر بنفس نفیس داخل ہوجائیں یا ان کے سامنے کسی شکل میں ظاہر ہوں ۔ اب اس بات کو عمومی طور پر عاملین حضرات لازم مخالفت میں لیں گے مگر میرا سوال ہوتا ہی اس بنیاد پر ہے کہ اس سوال پر بھی سوال اٹھیں ، مثلا اگر اس بات پر کوئی عامل اتفاق نہ کرے تو اس سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ گدھے پر جنات کیوں طاری نہیں ہوتے ۔ شیر چیتے یا زیبرے میں جنات کیوں نہیں گھس پاتے ؟ کیونکہ انکے دماغ کا پیٹرن ہی ایسا نہیں کہ جنات کا اس پر غلبہ ہوسکے ۔ البتہ یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ انسانی آنکھ جنات کو کیوں نہیں دیکھ سکتی ۔ ایک حدیث پاک میں ہے کہ!
حدثنا قتیب بن سعید، حدثنا اللیث، عن جعفر بن ربیع، عن الاعرج، عن ابی ہریر رضی اللہ عنہ، ان النبی صل اللہ علیہ وسلم، قال: ” ذا سمعتم صیاح الدی فاسالوا اللہ من فضلہ فنہا رات ملا، وذا سمعتم نہیق الحمار فتعوذوا باللہ من الشیطان فنہ را شیطانا “. قال ابو عیس: ہذا حدیث حسن صحیح. ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ وہ اسی وقت بولتا ہے جب اسے کوئی فرشتہ نظر آتا ہے، اور جب گدھے کے رینگنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ وہ اس وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: صحیح البخاری/بد الخلق 15 (3303)، صحیح مسلم/الذکر والدعا 20 (2729)، سنن ابی داود/ الادب 115 (5102) (تحف الاشراف: 13629)، و مسند احمد (2/321) (صحیح)
اس حدیث پاک پر غور کیا جائے تو ایک بات علم نفسیات و سائنس کی روشنی میں عیاں ہوتی ہے کہ ضرور مرغ اور گدھے کی آنکھ میں کچھ ایسے ڈیٹیکٹر موجود ہیں جو قدرت نے انسان کو کسی مخصوص حکمت کی بنیاد پر نہیں دیے ۔وہ ڈیٹیکٹر کیا ہیں ؟ انسانی آنکھ اور مرغ کی آنکھ میں آخر فرق کیا ہے ؟ اب اس بات کو سمجھنے کے لیے غور سے مطالعہ کیجیے گا کہ یونیورسل ڈیٹا کائنات کی انیس اقسام میں ٹریول کرتا ہے اور جس ڈیٹا / تصاویر / روشنیوں کو آپ دیکھ پاتے ہیں یعنی آسمان ،چاند ،سورج، ستارے اور اپنے سیارے یعنی زمین پر موجود ہر مادی شے کو دیکھ سکتے ہیں تو یہ سارا ویزبل یعنی نظر آنے والی لائٹ / روشنی کا ڈیٹا ہے ۔ بالکل آسانی سے کہا جائے تو ہم انسان جن اشیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی اہلیت و قابلیت رکھتے ہیں وہ سب اشیا دکھائی دینے والی روشنیوں سے بنی مادی وجود کا ڈیٹا ہے اور انسانی آنکھ کی رسائی بھی فقط یہیں تک بظاہر ہے لیکن روشنی کی ایک قسم ایکسرے میں آپ دیکھنے لگ جائیں تو آپ موٹی دیواروں کے پار دیکھ سکتے ہیں اگر آپ انفراریڈ وزن میں دیکھنے لگ جائیں تو اپ کو اپنے گرد گرمی اور سردی مختلف رنگوں میں نظر آئے گی ۔۔۔ اسی طرح گیما وزن سے کائناتی شعائیں ، الٹراوائلٹ وزن سے انرجی اور ریڈیو ویوز سے یونیورسل آوازوں کو آپ سن سکتے ہیں۔۔۔۔ یعنی انسان اگر روشنی کی انیس اقسام پر قدرت حاصل کرلے تو اس انسان تک پہنچنے والا یونیورسل ڈیٹا اتنا زیادہ اور عجیب و غریب ہوگا کہ ایک طرح سے سپر ہیومن بن جائے گا۔۔۔۔ اب جس طرح انسان بذات خود نظر آنے والی لائٹ کا ڈیٹا ہے ۔اس کے بغیر آپ کسی بھی انسان کو دیکھ نہیں سکتے ۔۔ اسی طرح جنات اور فرشتے بھی روشنی کی ان انیس اقسام میں سے کوئی ایک قسم ہیں ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ جو جانور عام نظر آنے والی روشنی کی اقسام کے ساتھ ساتھ دیگر روشنی کی اقسام کو ایکسس کرپاتے ہیں تو انہیں فرشتے اور جنات نظر آجاتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر میں نے حدیث پاک پیش کی جس کا مفہوم ہے کہ مرغ فرشتوں کو جبکہ گدھا شیطان کو دیکھتا ہے ۔ تو اتنی تمہید میں یہ بات تو کلئیر ہوجاتی ہے کہ جنات اور فرشتے روشنی یا فریکوینسی کی دو الگ الگ اقسام کا ڈیٹا ہیں ۔ اب اگر مرغ کی آنکھ کا سائنسی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرغ کی آنکھ میں پانچ لائٹ ریسپٹر موجود ہیں ۔ مزید آسانی سے کہا جائے تو لائٹ ریسپٹر سے مراد آنکھ میں داخل ہونے والے ڈیٹا کو جمع کرنے والے خلیات مراد ہیں ۔۔ جبکہ انسانی آنکھ میں قدرت نے اپنی کسی خاص حکمت کے تحت صرف دو لائٹ ریسپٹر دیے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہم بظاہر چیزوں کی خوبصورتی یا بدصورتی کا اندازہ تو کرسکتے ہیں مگر منظر کی جو تفصیل ایک مرغ دیکھ سکتا ہے وہ ایک انسان دیکھنے سے قاصر ہے اور دوسری اہم چیز کہ مرغ الٹرا والٹ وزن میں بھی دیکھ سکتا ہے ۔یعنی ہر وہ شے جس میں انرجی ہے خواہ وہ انسان کو نظر نہ بھی آرہی ہو لیکن مرغ اس کو دیکھ سکتا ہے ۔۔ تو اس سے یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ شائد فرشتے الٹراوائٹ وزن کی ہی کوئی مخلوق ہیں ۔ اب مرغ اور انسان کی آنکھ میں سب سے بڑا فرق (فوا آئی سیل ) ہے یہ وہ آنکھ کا خلیہ ہے جو مرغ کو تیز ترین حرکت کرتی چیز کی بھی مکمل تفصیل دیتا ہے مثلا ایک گولی بندوق سے نکلی مرغ اسکو اسی فوا آئی سیل کی مددسے سلو موشن میں دیکھ سکتا ہے پوری تفصیل سے اسکا مشاہدہ کرسکتا ہے ۔۔ لیکن انسان اس تیز حرکت کو نہیں دیکھ سکتا کیونکہ انسان کی آنکھ میں فوا کا خلیہ نہیں ہے ۔۔
روحا نیاتی اعتبار سے نفسی علوم تو یہاں تک رہنمائی کرتے ہیں اس سے بڑھ کر شریعت مبارکہ سے رہنمائی لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے سپیڈ آف لائٹ سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ ٹریلول کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جبکہ مرغ فرشتوں کو دیکھنے کے لیے نہ صرف اپنی آنکھوں میں قدرت کا عطا کردہ اہم لائٹ وزن لیے ہے بلکہ وہ ان کی حرکت کو مشاہدہ کرنے کے لیے ایک مخصوص خلیہ یعنی فوا بھی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرغ فرشتوں کو دیکھ کر بولتا ہے ۔ اسی طرح سوال کا دوسرا حصہ کہ گدھا شیطان کو دیکھ کر کیوں بولتا ہے یا کیوں دیکھ سکتا ہے انسان کیوں نہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم گدھے کی آنکھ کا بھی جائزہ لیں ۔۔ سائنسی تحقیق کے مطابق گدھے کے پاس الٹراوائلٹ وزن موجود نہیں ہے ۔۔۔ اورا سکی آنکھ بھی انسانی آنکھ سے زیادہ مختلف نہیں ہے ۔۔۔ لیکن ایک چیز کو گدھے کی آنکھ کو انسانی آنکھ سے الگ بناتی ہے وہ ہے روڈ آئی ٹشوز : یہ وہ ٹشوز ہیں جو ہماری آنکھ کو چیزوں کی تفصیل سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔۔ لیکن یہ ٹشوز انسان کی نسبت گدھے کی آنکھ میں اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ایک گدھا گھپ اندھیرے میں بھی سیاہ ترین سایوں کو اچھی طرح دیکھ سکتا ہے ۔۔۔ اب ان ٹشوز کی کثرت کی وجہ سے گدھے کے لائٹ وزن میں ہلکا ہلکا گیما ویزن بھی مکس ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ ہمیشہ غیر واضح سائیوں کو حرکت کرتے دیکھتا ہے اور بعض اوقات جب کنفیوز ہوجائے تو چیخنا شروع کردیتا ہے ۔۔۔ جب قدرت کا انسان پر خاص فضل یہ ہے کہ اسکے دماغ کو سب سے افضل و پاروفل بنایا لیکن آنکھ کو ایک حکمت کی بدولت کمزور رکھا تاکہ یہ چیزوں کی اصل خوبصورتی سے پوری طرح لطف اندوز ہو ۔۔ اگر یہ اس سے آگے دیکھنا چاہے تو اپنے خدا کے عطا کردہ علم فہم و فراست عقل و دانست کی بنیاد پر ایسے مقام کو پاسکتا ہے ایسی ایجادات کرسکتا ہے جو اس انسان کو عجائبات کائنات دیکھنے میں مددگار معاون ہوں۔۔۔ امید ہے کہ آپ کو بخوبی سمجھ آگیا ہوگیا کہ انسانی آنکھ میں وہ کونسے فنگشن نہیں رکھے گئے جن کی وجہ سے جنات اور فرشتے یا شیاطین وغیرہ انسانوں کو عام نظر نہیں آتے جبکہ اسکو مرغ و گدھا دیکھ لیتا ہے۔ اس موضوع پر مزید بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر جتنا سوال ہے اس کے مطابق شائد اتنا جواب ہی کافی ہے ۔۔ ان شا اللہ احباب کے اشتیاق کے مطابق آئندہ بھی اس طرز پر نفسی روحانی سائنسی نظریات پر مشتمل مضامین پیش خدمت کرتا رہوں گا، بشرط کہ اس پر احباب کا زوق ساتھ دے ، اللہ عزوجل ہماری تمام علمی عملی کمی کوتاہیوں کو دور فرماتے ہوئے بطفیل حضور ۖ ہمارے قلوب و ازہان کو علم کے لیے کھول دے، آمین بجاہ سید المرسلین ۖ
٭٭٭