”عوام اور وطن کا سوچیئے”

0
288
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے نواز لیگ کے زوال کے آغاز کی پیشگوئی کی تھی۔ ممکن ہے بعض تجزیہ کاروں اور مبصروں کو ہمارے اس استدلال سے اتفاق نہ رہا ہو لیکن سیالکوٹ میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کا نتیجہ ہمارے مؤقف کی تائید کی صورت میں سامنے آیا ہے جہاں نوازلیگ کی تین عشروں سے موروثی نشست پر پی ٹی آئی کا امیدوار کامیاب ہوا جبکہ ن لیگ کا امیدوار گزشتہ انتخاب کے ووٹوں سے بھی کم ووٹ حاصل کر سکا۔ اس انتخابی دھچکے کی وجہ کے بارے میںنوازلیگ کا مطمع نظر کچھ بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ اس شکست کا سب سے بڑا محرک خود لیگ کے اندر متضاد بیانیہ اور سوچ ہے۔ سیالکوٹ کا یہ حلقہ پاک بھارت سرحد کا قریب ترین علاقہ ہے اور اس کے مکین بھارتی شیطانیت فائرنگ اور پاکستان مخالف اقدامات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں مریم نواز کا فوج مخالف بیانیہ کسی بھی طرح حلقے کے عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک وجہ یہ بھی رہی کہ چچا بھیتجی کے درمیان مفاہمت و مزاحمت کے بیانیئے کا تضاد خود نوازلیگ کے ووٹرز ، سپورٹرز کے درمیان کنفیوژن کا باعث بنا۔ یہ حقیقت اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ بیانیوں کا تضاد نہ صرف اس جماعت کے ووٹ بینک پر بری طرح اثر انداز ہوا ہے بلکہ خاندان شریفاں میں بھی دراڑیں ڈال چکا ہے۔ سلیم صافی کے پروگرام میں شہباز شریف کی گفتگو اس امر کی مظہر ہے کہ اب گڈکاپ اور بیڈکاپ کا کھیل زیادہ دیر نہیں چل سکے گا اور چچا بھتیجی میں سے کسی ایک کو آئندہ کے لئے پس منظر میں جانا پڑے گا۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ چھوٹے میاں صاحب ن لیگ کی فعال سیاست سے دستبردار ہونے پر بضد ہیں تاہم ان کے بیٹوں نے تایا جان سے رابطہ کرنے کے لئے انہیں دس دنوں کے لئے روکا ہے۔
ہمیں نوازلیگ سے کوئی مخاصمت نہیں لیکن اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ خود کو قائداعظم کی وارث کہنے والی جماعت، تین بار اقتدار میں رہنے والی اور غیر معمولی ووٹ بینک کی حامل سیاسی پارٹی اپنے سربراہ اور اس کی بیٹی کی مفاد پرستی، کرپشن اور اس کے نتیجے میں سزائوں و نتائج سے بچنے کے لئے ریاست بالخصوص اسٹیبلشمنٹ مخالفت میں اس حد تک جا چکی ہے کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت اور افغانستان کی موجودہ اشرافیہ کے پا کستان دشمن ایجنڈے کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ ایک فطری سی بات ہے کہ نواز لیگ کا یہ منافقانہ کردار پاکستانی قوم کے لئے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا، خصوصاً پنجاب جیسے سب سے بڑے صوبے کے عوام جن کی نسلیں نہ صرف پاکستان کے تحفظ و دفاع کے لئے کثرت سے پاکستانی افواج کا حصہ ہیں بلکہ اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرنے میں بھی ہر اول دستہ ہیں، کیسے کسی سازشی جماعت کے حق میں جا سکتے ہیں۔ آئندہ قومی انتخابات میں اب دو برس سے بھی کم وقت رہ گیا ہے نوازلیگ 2018ء سے اب تک صرف اور صرف عمران و فوج مخالف ایجنڈے پر کاربند ہے۔ ناکارہ ، نالائق، چینی ، آٹا چور کا بیانیہ، اس قدر گھس پٹ گیا ہے کہ اب عوام کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی اور نہ ہی یہ بیانیہ 2023ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کسی نقصان کا باعث نظر آتا ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ نوازلیگ نہ صرف اپنے رویوں میں تبدیلی لائے بلکہ آنے والے انتخابات کے لیے واضح اسٹرٹیجی اور پالیسیز کا ابلاغ کرے۔
ہمارا یہی مشورہ کپتان کی تحریک انصاف کے لئے بھی ہے۔ پنجاب، پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر میں حکومتوں کا قیام اور اب سیالکوٹ میں ضمنی انتخاب میں کامیابی یقینا پی ٹی آئی کی مقبولیت اور عمران خان کی کرشماتی شخصیت کی مرہون منت ہے لیکن آنے والے انتخابات کے لئے محض مقبولیت اور کپتان کا ایماندار ہونا اور بدعنوانوں کے خلاف پروپیگنڈہ ہی کافی نہیں۔ آئندہ انتخابات سے قبل عوامی مفاد اور بہتر زندگی گزارنے کے اقدامات و عملداری کی ضرورت ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے زوال پذیر معیشت کی بہتری کے لیے طویل المعیاد منصوبے اور پروجیکٹس پر خاطر خواہ کام کئے ہیں اور ان کے مثبت نتائج یقینا مستقبل میں سامنے آئیں گے لیکن عوام الناس کو درپیش حالیہ مشکلات، مہنگائی کا طوفان، امن و امان کے مسائل، بدانتظامی و حکومتی کارکردگی ایسی وجوہات ہیں جو عام آدمی کو دلبرداشتہ کرنے اور مقبولیت میں کمی کی اہم وجہ بن سکتے ہیں۔ مزید براں کورونا کو لے کر سیاست کا کھیل اور اس کی آڑ میں بھونپوئوں کا مخالفین پر کیچڑ اچھالنا پی ٹی آئی کی عوامی فلاح اور مثبت تاثر کی نفی بن رہا ہے۔ سندھ میں کورونا کی شدید ترین کیفیت پر صوبائی حکومت کے لاک ڈائون پر فواد چودھری ، اسد عمر ، شہباز گل اور دیگر کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد اب وفاق نے بھی لاک ڈائون کا اعلان کردیا ہے۔ عوام میں وباء پر سیاست کرنے کا تاثر منفی ہی ہو سکتا ہے۔
ہم بارہا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان کو درپیش موجودہ حالات میں تمام سیاسی و حکومتی طبقات کو مل کر ان حالات سے نپٹنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ایک دوسرے سے باہمی مشاورت و تعاون ہی واحد راستہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اختلافات سیاسی کی جگہ اب دشمنی اور ذاتیات کی حدود کو چھو رہے ہیں اور اس حوالے سے اخلاقیات و انسانی اقدار کو قطعی طور پر ترک کردیا گیا۔ تاریخی اور واقعاتی حوالے اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ جن معاشروں میں ارباب اختیار اور معاشرہ ساز طبقات انسانی و اخلاقی قدروں سے منحرف ہو جاتے ہیں ، وہ معاشرے زوال کا شکار ہو جاتے ہیں، اخلاقی انحطاط ، بے راہروی، کینہ پروری اور منتقم مزاجی کا دور دورہ ہوتا ہے، کمزور بے بس نظر آتے ہیں اور زور آور من مانیاں کرکے بھی کسی بھی گرفت سے آزاد رہتے ہیں۔ وطن عزیز میں ہونے والے موجودہ حالات و واقعات پر نظر ڈالیں تو ایک انحطاط پذیر معاشرے کی واضح تصویر نظر آرہی ہے۔ لوگوں میں عدم برداشت ، بے حسی، فحاشی اور ارتکاب جرم اپنی انتہائی حدود کو پہنچ گئے ہیں۔ ان تمام برائیوں کا نشانہ کمزور طبقات ،خصوصاً خواتین اور بچے ہیں جن پر ظلم و بربریت، جنسی درندگی اور قتال کی خبریں اور کہانیاں ہر روز ہی آپ کے علم میں آتی ہیں۔ خارجی محاذ پر تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود بھی ملک دشمنوں کی سازشیں وطن عزیز کے درپے ہیں۔ ان حالات میں ملک اور عوام کی بہتری کے لئے باہم عمل، اتفاق اور وحد ت سے اجتماعی کاوشوں اور کوششوں کو روبہ عمل لانا ضروری ہے نہ کہ ذاتی عناد و مخالفانہ اقدامات پر عمل کرنے کی ۔سیاسی برتری و کامیابی کی کلید واضح اسٹرٹیجی اور عوامی مفاد کے منشور و عمل میں ہے اور بیرونی قوتوں سے نبردآزما ہونے کے لئے وحدت قوم کی تصویر واضح کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگست کا مہینہ شروع ہو چکا ہے قائد اعظم کا سبق اتحاد ، تنظیم اور عقیدہ ہمارے عمل کی بنیاد کب بنے گا؟۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here