امریکہ میں چیریٹی مشاعروں میں شرکت کرتے ہوئے، ہمیں محترم امجد اسلام امجد (مرحوم)کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ امجد صاحب ہمارے ہاں تقریبا ہر مشاعرے میں اپنی نظم سیلف میڈ ضرور پڑھا کرتے تھے ۔ پہلی ملاقات ہوئی تو انکی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ مجھے بھی وہ اسی کیٹیگری میں شامل کررہے ہیں۔ شاید محترم بھائی عبدالشکور صاحب نے ان سے میرا تعارف ہی ایسا طرح دار کرادیا تھا، بہرحال امجد اسلام امجد جیسی دانشور ہستی سے تو میری کیا بحث ہونی تھی لیکن اپنے طور پر میں نے کبھی اپنے آپ کو سیلف میڈ کے درجہ میں شمار نہیں کیا۔۔۔ اور بھلا کر بھی کیسے سکتا ہوں؟ ایک دور دراز دیہات میں پرورش پانے والے بچے نے اِسی مملکتِ خداداد کے سپورٹ سسٹم کی مدد سے انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کی اور اسکالرشپ لے کر امریکہ پہنچا۔ اس سارے عرصے میں اسے کسی مرحلے پر بھی کوئی جاب نہیں کرنا پڑی۔ اس لئے میں اپنے آپ کو پاکستان میڈ تو کہہ سکتا ہوں لیکن سیلف میڈ نہیں۔شروع شروع میں پاکستان سے امریکہ آنے والے طلبا اور پروفیشنلز اکثر دو آپشنز پر بحث کرتے رہتے تھے۔ پہلا یہ کہ یہیں امریکہ کی کسی انڈسٹری میں فٹ یا سیٹ ہو جائیں، اپنے خاندان کو بھی آہستہ آہستہ یہاں بلا لیں اور پکے امریکی بن جائیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان واپس جاکر کوئی اچھی ملازمت تلاش کریں اور کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں فٹ ہو جائیں۔ میں شروع دن سے ہی ایک درمیانی راستے کا سوچتا تھا۔ ایک تو یہ کہ جو دن بھی امریکہ میں گزارنا ہے وہ اس طرح گزارنا ہے کہ جیسے ساری عمر یہیں رہنا ہے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان میں نوکری کی تلاش یا ملازمت لینے کی بجائے، وہاں کے نوجوانوں کیلئے ملازمتوں یا نوکریوں کا انتظام کرنا ہے۔ اللہ تعالی نے مجھے نوازہ اور موقع فراہم کیا کہ بجائے اس کے کہ واپس آکر ملازمت تلاش کروں، یہاں کئی ادارے بنانے کی ذمہ داری نبھائی اور ان اداروں کیلئے مناسب افراد کا انتخاب اور تعین کیا۔آج بھی اسلام آباد میں کچھ ایسا ہی دن گزرا۔ زکوا فانڈیشن کے پاکستان آفس کیلئے تین چار اہم تعیناتیوں کا پراسس مکمل ہوا۔ محترم فضل الرحمان صاحب جنہوں نے بوسٹن (امریکہ) سے سسٹین ایبل انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی اوراب ماشااللہ، ایک دو ماہ میں پی ایچ ڈی بھی ہو جائیں گے، ہمارے اس اسلام آباد آفس کی سربراہی کریں گے۔ ان کے علاوہ ایک مضبوط فل ٹائیم ٹیم ہمارے مختلف اہداف کو حاصل کرنے کیلئے مسلسل کوشاں رہے گی۔ میں آج اپنے ِان ساتھیوں کو یہ ذمہ داریاں قبول کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور پھر مجھے علمائے دیوبند کا یہ فتوی یاد آرہا تھا کہ ویسے تو تجارت کو ملازمت پر فوقیت حاصل ہے لیکن اگر اجارہ کسی اسلامی کام کرنے کی بنیاد پر ملے تو یہ حصولِ رزق کا عام تجارت سے بھی افضل ذریعہ ہے۔ ناداروں اور غریبوں کی فلاح و بہبود اور حقوق کی حفاظت کیلئے کام کرنے والے ادارے زکوا فانڈیشن آف امریکہ کے کارکنان بلاشبہ خوش قسمت لوگ ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے اوورسیز رہنے والے پاکستانی سیلف میڈ لوگ کہلائے جا سکتے ہیں۔ وہ خالی ہاتھ بغیر کسی اسکل (Skill) اور ڈگری کے، ملک سے باہر گئے اور صبح شام ایک کرکے اپنے خاندان اور ملک کیلئے بہت کچھ کمایا اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے مزید خرچ کرنے کیلئے بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے وسائل کا صحیح اورمنصفانہ استعمال یقینی بنایا جائے۔ ان عظیم لوگوں کیلئے، کیا لازوال اور خوبصورت نظم ہے، امجد اسلام امجد صاحب کی:
زندگی کے دامن میں ۔۔۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں
یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہو ۔۔۔ پسِ نوشت ہو جائے
فصلِ گل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں
ان کے صحن میں سورج ۔۔۔ دیر سے نکلتے ہیں
ذاتی طور پر میری زندگی میں تو ہمیشہ آسانیاں ہی آسانیاں رہی ہیں۔ اس لئے اب مسلسل فکر بھی یہی رہتی ہے کہ اپنی دھرتی اور کمیونٹی کو پے بیک کیسے کیا جائے۔ عمران عامی صاحب نے اپنے ایک ہی شعر میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
اچھا نہیں کہ وقت سے پہلے ہو طے سفر
مٹی کا تھوڑا قرض چکانا کہیں تو ہے
٭٭٭