ملک بنے جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں76سال چار ماہ ہوگئے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں ترقی اور کارکردگی کے لحاظ سے کہ ہمیں فیس یک اور دوسرے سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کی ڈالی ہوئی پوسٹ کا جائزہ لینا پڑتا ہے اور حیرانی ہوتی ہے کہ کیا کبھی ہمارے حکمرانوں اور نالائق امریکہ کی غلامی میں سر تا پائوں ڈوبے جنرلوں نے یہ پڑھا ہے جو ہم پڑھتے ہیں اور حقائق یہ ہی ہیں جب کہ جنرل عاصم منیر تعلقات عامہ کے ذریعے فرماتے ہیں بلکہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ افواہیں اڑانے اور الزام تراشی کرنے والوں پر نظر ہے۔ درست فرمایا آپ اس کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں کہ معروف ہیں پاکستان کے ہر ادارے پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں اور اگر آپ کا ادارہ پڑھ رہا ہو تو جواب دے دیں کہ کیا غلط ہے اور کیا الزام، سال2023بھی آخری لمحوں میں ہے۔ اور ہم نے بہت غور سے جو پوسٹ نکالی ہیں وہ یہ ہیں۔
”75سال کی کارکردگی آدھا ملک بنگلہ دیش، آدھا ملک کنگلا دیش” یہ کسی امریکی لکھاری نے کبھی کہا تھا اور یہ عوام کے لئے ہے۔”بھیڑوں کی قوم کو جلد ہی بھیڑیوں جیسے حکمران ملینگے”
”آج موقعہ ملا۔5سال پرانے اخبارات کی چھان بین کی تو کہنا پڑا کہ ”نصف صدی بھی بعد بھی دشمن بدلا، نہ فوج، نہ حکمرانوں کے بیان، نہ میڈیا کے جھوٹ، اور اگر کچھ بدلا یا بڑھائو آیا وہ امریکہ کی زنجیروں کے بغیر غلامی ہم کس قدر مستقل مزاج ہیں۔ ”ساتھ ہی یہ بھی کہ” پاکستان امریکہ کا معاشی غلام ہے، چین کا سیاسی غلام ہے، انڈیا کا ثقافتی غلام اور سعودیہ کا مذہبی غلام” اور لوگ اگر بھول چکے ہیں اس مذہبی غلامی کو تو یاد کرلیں یہ پوسٹ، جو گورنر مرحوم سلمان تاثیر کے لئے لکھا گیا ”شہید انسانیت، بے خوف، نڈر اور بے باک سلمان تاثیر ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ایک بہادر آدمی جس نے اندھوں کے شہر میں آئینہ دکھانے کی کوشش کی اور ایک اندھے نے جیسے مذہبی جنون تھا اور جو انکا ڈرائیور تھا ان کی جان لے لی صرف اس لئے کہ توہین رسالت کے قانون کی ایک شک میں تبدیلی کے خواہاں تھے اور آج اندھوں کے اس شہر میں قاتل کا فرار ہے اور چادریں چڑھائی جاتی ہیں منتیں مانگی جاتی ہیں۔ مجاوروں کی بھیڑ ہوتی ہے سلمان تاثیر نے غلط تو نہیں کہا تھا؟
ہم مسلمان ہیں اور کچھ کہتے ہیں پاکستان کا مطلب کلمہ شہادت، لیکن آج ہم اسلام سے کوسوں دور ہیں اور سب سے بڑے شہر میں عرصہ تک دانشوروں ملک کے خدمت گزاروں۔ معلموں اور غریب مزدوروں کی ایک فیکٹری میں ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے آگ لگا کر تین سو مسلمانوں کو راکھ بنا دیا۔ آج تک کوئی نہیں پکڑا گیا لیکن سب کو معلوم ہیں یہ لوگ جو آرمی کی چھتری کے نیچے کام کرتے ہیں اور یہ ہی آرمی جب چاہتی ہے تو راتوں رات ان کے جوانوں کو اٹھا اٹھا کر لے جاتی ہے پتہ نہیں چلتا کہاں گئے دفاتر پر تالہ لگاتی ہے اور گھر گندی سیاست کھیلنی ہے دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا حتیٰ کہ سسلی(اٹلی) کی مافیا بھی ایسا نہیں کرتی، جہاں صرف ایک مافیا ہے لیکن پاکستان میں، مذہبی، سیاسی، فوجی، قبضہ، عدلیہ، پولیس، بحریہ ٹائون ان گنت مافیا ہیں جن کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ اور پاکستان میں انقلاب آنے میں ابھی پچاس سال لگ سکتے ہیں ابھی لوگوں کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں شدید مہنگائی کے باوجود۔ میں بچپن سے سنتا آرہا ہوں خدا دیکھ رہا ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے بچوں بڑوں کی لاشیں سڑکوں پر بکھری پڑی ہیں تو میں خدا سے پوچھتا ہوں اے خدا تو دیکھ رہا ہے ناگواہ رہنا۔ منگول نے بغداد کی گلی گلی میں آگ گا کر تعلیم گاہیں، لائبریریاں جلا ڈالی تھیں زندہ لوگوں کو آگ میں جھونک دیا تھا۔ کچھ یہ ہی بلکہ اس سے زیادہ امریکہ نے اسرائیل سے کروا دیا ہے اور خدا دیکھ رہا ہے کیا الطاف حسین منگول ہے اس کے لئے لکھا ”جس فیکٹری سے الطاف کو میسر نہ ہو بھتہ اس فیکٹری میں موجود ہر شخص کو جلا دو” اور یہ بھی ایک پوسٹ تھی ،جس ہندوستان کو انگریز سونے کی چڑیا کہتے تھے انہوں نے وہیں کے وسائل سے ملک کو ترقی دی۔ٹرینوں سے عدلیہ، پولیس اور سکول کا بہترین نظام قائم کیا، ملک ٹکڑے ہوا تو پاکستان کے حکمران پچھلے76سال سے اس خطے کو بیرونی قرض، اور خیرات سے چلا رہے ہیں، فیصلہ کریں انگریز چور تھا یا ہمارے حکمران آرمی ٹاپ پر ہے۔ تو شاید جون ایلیاء کا یہ شعر
”اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
فی الحال یہ آرمی ہے جس سے23کروڑ کو خطرہ ہے۔ لینن نے بھی کیا خوب کہا تھا جو میرے ملک کے عوام پر پورا اترتا ہے ”جب غربت انقلاب برپا نہیں کرتی تو جرائم پیدا کرتی ہے” اور ایسا ہی ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا”
”سننا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے سنا ہے مشیر کا جب بیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا سنا ہے ہوا کے تیز جھونکوں میں بینا اپنے گھونسلے کو بھول کر کوے کے انڈوں کو پنجوں میں تھام لیتی ہے سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو پورا جنگل کانپ جاتا ہے لکڑی کے تختہ پر”سانپ، چیتا اور بکری ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں” اے منصفو اور حکمرانوں اور آرمی کے جاہل جنرلو میرے ملک میں جنگل کا ہی کوئی رواج لے آئو۔ یہ لکھا تھا انور مقصود نے ہم نے تھوڑی تبدیلی اور اضافہ کیا ہے آج کے مطابق۔ آئیں ذرا سندھ کی بات کریں اور عوام نے جو لکھا پڑھیں” سندھ کے ایک چرسی وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے کہا تھا سنہری الفاظ میں ”کرپشن ہمارے دور کی پیداوار نہیں یہ لیاقت علی خان کے زمانے سے شروع ہوئی جو منتخب وزیراعظم نہیں تھے” اور اضافہ کرلیں”البتہ مہ نے سائیں زرداری کے سائے میں کرپشن کو عروج پر پہنچایا سائیں نے منی لانڈرنگ کو بھی نت نئے انداز سے تقویت دی ماڈل لڑکیوں کو ملازم کیا عیاشی کے ساتھ منی لانڈرنگ کرائی ایک بذات پکڑی گئی آیان علی تو راتوں رات کسٹم آفیسر اعجاز محمود کو مروا دیا گیا۔
اگر76سال گزرنے کے بعد ہم۔ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان ہیں تو الحمدوللہ ہم بھی مہاجر ہیں لیکن اب تک اچھٹی طاقتور قوم پیدا ہوچکی ہے۔ ”فوجی” اور پاکستان کے جوانوں کی اکثریت جو اشرافیہ کی اولادیں ہیں انکے لئے درست کہنے ”انگلش بولو، ڈریسنگ اطالوی(ITALIAN) کرو، دوبئی میں شاپنگ کرو کیئربین(CARIBBEAN) میں پارٹیاں کرو، بھنگ چرس، شراب کا نشہ کرو” معذرت کے ساتھ آج کا پاکستان دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو کس قدر ڈرائونے خواب آتے ہونگے لیکن طارق جمیل خوش کرتے ہیں حوروں کے ذکر سے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭